کیا کہوں زندگی کے بارے میں
اک تماشا تھا عمر بھر دیکھا
زندگی گلزار نہیں، زندگی کو پھر کیا کہیں۔۔۔؟ وفا کا پیکر، ایک کہانی، ایک داستان، ایک مدہم روشنی، ایک معجزہ، ایک نعمت، ایک دھواں، ایک راز، ایک جان، ایک پھونک، ایک نشہ، ایک آہ یا محض ایک تماشہ –
انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کا نام زندگی ہے، جس دوران اس کی زندگی میں مختلف واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں ہزاروں خوشیوں سمیت ہزاروں غم بھی شامل ہوتے ہیں، اسی زندگی کے دوران وہ بہت سے ارادے اور فیصلے بھی کرتا ہے، ان پر عمل بھی کرتا ہے اوربعض اوقات فیصلہ کرنے کے باوجود ان سے بھی پیچھے ہٹ جاتا ہے، انسان خطاؤں کا پتلا ہے اور درد دل انسان بھی، وہ اتنا تجربے کار بھی ہوتا ہے کہ اپنی زندگی میں سامنے والے شخص کی پریشانیوں کو لمحوں میں پرکھ لیتا ہے اور کبھی کبھی وہ دنیا سے بیگانہ رہ کر ہی اپنی زندگی بسر کرلیتا ہے۔
میں بذات خود جب آس پاس لوگوں کو دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جس زندگی کو ہم کوستے ہیں، جسے دھتکارتے ہیں، جس کے اکثر گزر جانے کی چاہ رکھتے ہیں وہ تو کئی زندگیوں سے بہتر ہے بلکہ بہت بہتر!، وہ محض ایک تماشا نہیں بلکہ ایک اصلاح ہے، ایک سبق ہے، ایک کتاب ہے اور حسین سفر بھی!، یہ سوچ بھی ذہن میں آتی ہے کہ جس زندگی کے ہم مالک ہیں یہ تو بہت سارے لوگوں کی زنگیوں سے بہتر ہے، مجھ سمیت ہم ہر وقت یہ ہی کیوں سوچتے ہیں کہ زندگی میں یہ نہیں کیا، وہ کام کیوں کیا، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، یہ غلط ہوا وغیرہ جبکہ دوسری جانب ہم میں سے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ) یہ ہونا ہی تھا اور اسی لئے ہوگیا ( ہائے یہ نصیب! اب پچھتاوے سے کیا ہووے-
حاصل زندگی حسرتوں کے سوا کچھ نہیں
یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں، وہ رہا نہیں
تو جناب! زندگی میں کچھ اچھا ہو تو ہماری واہ واہ اور برا ہو تو نصیب پر ڈال دینا ٹھیک نہیں بلکہ اس زندگی کو بگاڑنے اور سنوارنے میں خود ہمارا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، زندگی وہ سبق ہے جسے جتنا جلدی سیکھ لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے ورنہ وہ خود بہت کچھ سیکھا دیتی ہے-