سُچا رِشتہؔ ماں ہے یارو


ماں کبھی خفا نہیں ہوتی

ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور، آنکھوں میں ٹھنڈک، الفاظ میں محبت، آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ رب کریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کیلئے ماں کو مثال بناتا ہے۔ ماں وہ ہے جس کو اک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ہی حج کا سا ثواب ہے۔
ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھوں پر اُٹھا کر سات حج کرائے اور بولا آج میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو غیب سے آواز آئی کہ ابھی تو تو نے اس ایک رات کا حق بھی ادا نہیں کیا جب تو نے سوتے میں بستر گیلا کر دیا تھا تو تیری ماں ہی تھی جس نے تجھے تو خشک جگہ پر لیٹا دیا اور خود گیلی جگہ پر لیٹ گئی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ غیب سے آواز آئی ”اے موسیٰ! سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ ارشاد ہوا فلاں قصاب ہوگا۔ آپ کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے۔ وہاں دیکھا توایک قصاب اپنی دکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا۔ اپنا کاروبار ختم کرکے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصائی کے گھر کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔ گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت کو پکایا پھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔

قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا۔ جب اس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔ بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصاب مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آگیا۔ حضرت موسی علیہ السلام جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرادیا؟ قصاب بولا ارے اجنبی! یہ عورت میری ماں ہے۔ گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں، یہ روز خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا میں کہاں اور موسی کلیم اللہ کہاں۔

ہماری نئی نسل میں والدین کیلئے عزت و احترام کا رجحان کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اکثر لوگ ماں باپ کے احسان کو بھول کر ان کی محنت اور محبت کو فراموش کردیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے والدین کے اخراجات خوشی سے اُٹھاتے ہیں لیکن ان کیلئے وقت نہیں نکال پاتے۔ ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ماں باپ کو پیسوں یا دوسری چیزوں سے زیادہ اُولاد کے وقت، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اُچا ربّ دا ناں ہے یارو
سُچا رِشتہؔ ماں ہے یارو
ماں ہوے تے گھردا ویہڑا
جنت ورگی تھاں ہے یارو

SUCHA RISHTA MAAN HAI YARO


اپنا تبصرہ بھیجیں