مصیبت کا مقابلہ صبر سے
اور
نعمتوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے کرو
ہم زمانہ جاہلیت سے دور اسلام میں آکر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں، ساری عمر پھر عمل صالح تو کرتے ہیں مگر بار بار کی توبہ بھول جاتے ہیں۔ ہم ایک کھائی سے بچ کر سمجھتے ہیں زندگی میں پھر کبھی کھائی نہیں آئے گی اور اگر آئی تو بھی ہم بچ جائیں گے- ہم ہمیشہ نعمتوں کو اپنی نیکیوں کا انعام سمجھتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہوں کی سزا-
اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بھی امتحان ہوتا ہے، نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا۔ صبر بہت اہم صفت ہے اور یہ بڑے نصیب والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡاۚ وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا ذُوۡ حَظٍّ عَظِيۡمٍ ﴿۳۵﴾
اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں
سورة فصلت ﴿۳۵﴾
’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نیکی اور بدی یکساں ںہیں، تم بدی کو اْس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگراْن لوگوں کو جو صبرکرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اْن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔
( حٰم السجدہ۴۱:۳۴۔۳۵)
نعمتوں کی حفاظت نیت، عمل، صبر، حمد و شکر سے ہے اور زوال ناشکری مکر و تکبر سے ہے-
عطا تو یہ کہ اخلاص عطا ہو
اور وفا یہ ہے کہ ہر میں .. تم ہو جائے!