“اشفاق احمد” لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا۔ مولوی صاحب غصے میں آ گئے، بولے: ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے؟
بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے!!
میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی: پتر مولوی صاحب غصے میں ہوں گے جو انھوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لیے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہنم حاصل کرنے کے لیے پتھر دل ہونا پڑتا ہے۔ جہنم لینے کے لیے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ہے، قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ہے، فساد پھیلانا پڑتا ہے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی پڑتی ہے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ہے، محبت سے نفرت کرنا پڑتی ہے، اس کے لیے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ہیں، رب العالمین اور رحمت للعالمین سے تعلقات توڑنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر جہنم ملتی ہے۔ تُوں تو اتنا کاہل ہے کہ پانی بھی خود نہیں پیتا۔ تجھ سے یہ محنت کیونکر ہوسکے گی؟ تُوں تو چڑیا کی موت پر ہفتوں روتا رہتا ہے پھر تُو اتنا پتھر دل کیسے بن سکتا ہے؟