اشفاق احمد کی کچھ یادیں ۔۔


میرے ایک دوست تھے سلطان راہی ان کا نام تھا – آپ نے ان کی فلمیں دیکھی ہونگیں – ایک روز مجھے ان کا پیغام ملا کہ آپ آئیں ایک چھوٹی سی محفل ہے – اس میں آپ کی شمولیت ضروری ہے اور آپ اسے پسند کرین گے – میں نے کہا ، بسم الله –

سلطان راہی کو شاید آپ جانتے ہوں یا نہیں اسے قرأت کا بڑا شوق تھا ، اور اس کا اپنا ایک انداز تھا – اس کا اپنا ایک لہجہ تھا – تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا گاؤں کا پینڈو آدمی – اس نے دھوتی باندھی ہوئی تھی ، کندھے کے اوپر اس کے کھیس تھا – سادہ سا آدمی کچھ اتنا زیادہ متاثر کن بھی نہیں تھا –

تو انھوں نے کہا ان سے ملیں یہ بھا رفیق ہے – ہم دس ، پندرہ لوگ دیوار کے ساتھ ڈھو لگا کر بیٹھ گئے –

سلطاں راہی نے کہا ، آپ کو اپنی کچھ قرأت سنانا چاہتا ہوں – ہم نے کہا بسم الله – انھوں نے کہا میں سوره مزمل پڑھونگا –

تو سلطان راہی نے اپنے انداز میں اپنے لہجے میں ، اور اپنی آواز میں سورہ مزمل کی تلاوت شروع کی – بہت ہی اعلیٰ درجے کی لوگوں نے بہت پسند کیا –

وہ پڑھتے رہے ہم دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سنتے رہے اور جب ختم ہو گئی تو سب کے دل میں آرزو تھی کہ کاش ایک مرتبہ پھر سے پڑھ سکے مگر انھوں نے بند کر دیا –

پھر انھوں نے بھا رفیق کی طرف دیکھا اور ان سے کہا جی آپ بھی فرمائیں – تو بھا رفیق نے کہا جی میری آرزو بھی سوره مزمل سنانے کی تھی لیکن چونکہ انھوں نے سنا دی –

ہم نے کہا نہیں نہیں آپ بھی ہم کو یہی سنائیں – ہم تو یہ آرزو کر رہے تھے کہ دوبارہ شروع ہوتی –

انھوں نے بیٹھ کر خواتین و حضرات اپنے اس انداز میں کھیس کندھے سے اتار کر گود میں رکھ لیا – اس کے اوپر کہنیاں رکھ کر بیٹھ گئے ، اور سورہ مزمل سنانی شروع کی –

آپ نے بیشمار کیسٹ سنے ہونگے – بیشمار قاریوں کو سنا ہوگا – انھوں نے جو سنایا اس کا اپنا ایک انداز تھا –

جوں جوں وہ سناتے چلے جا رہے تھے ، ہم سارے آدمیوں نے جو بیٹھے تھے ، یہ محسوس کیا اس بیٹھک میں تاریخ کا کوئی اور وقت آ گیا ہے –

یہ وہ وقت نہیں ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ، اور ہم لوگوں کو ایسا لگا کہ ہم قرون اولیٰ کے مدینے شریف کی زندگی میں ہیں ، اور یہ وہی عہد ہے وہی زمانہ ہے –

اور ہم ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو اس عہد کی آواز کو ویسے ہی کسی آدمی کے منہ سے سن رہے ہیں –

یہ سب کا تجربہ تھا – عجیب و غریب تجربہ تھا – ہم نے یوں محسوس کیا جیسے اس کمرے میں بیٹھک میں ، عجیب طرح کی روشنی تھی –

ہو سکتا ہے یہ ہمارا خیال ہو – لیکن اس کی کیفیت ایسی تھی کہ اس نے سب کے اوپر سحر کر دیا تھا – پھر وہ ختم ہو گئی – ہم نے زبان سے شکریہ ادا نہیں کیا ، کیونکہ ہم سارے اتنے جذب ہوگئے تھے کہ بولا نہیں جا رہا تھا –

البتہ ہماری نگاہوں میں ، جھکے ہوئے سروں میں ، اور ہماری کیفیت سے یہ صاف واضح ہوتا تھا کہ یہ جو کیفیت تھی ، جو گزری تھی یہ کچھ اور ہے –

تو کوشش کر کے ہمت کر کے میں نے کہا ، راہی صاحب ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں – پہلے آپ نے سوره مزمل سنا کر پھر آپ نے اپنے دوست کو لا کر تعارف کروایا اور قرآن سنوایا –

یہ کیفیت ہمارے اوپر کبھی پہلے طاری نہیں ہوئی تھی –

تو سلطاں راہی نے کہا ، بھا جی ! بات یہ ہے کہ میں سوره مزمل کو جانتا ہوں ، اور بہت اچھی طرح جانتا ہوں – لیکن یہ شخص مزمل والے کو جانتا ہے تو اس لئے فرق پڑا-

تو جب آپ والی کو جانتے ہیں ، اور جاننے لگتے ہیں زندگی میں خوش قسمتی سے – یا الله سے ایسا رابطہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا اس کا تھا تو پھر وہ کیفیت اور طرح کی ہوتی ہے –

( زاویہ سے اقتباس )

ISHFAQ AHMED KI KUCH YAADAIN


اپنا تبصرہ بھیجیں