ویسے تو مجھے تعارف کروانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن میں ابلیس ہوں- اس نام سے مجھے کم لوگ ہی جانتے ہیں، زیادہ تر لوگ شیطان کے نام سے جانتے ہیں- اس کے علاوہ بھی میرے بہت سے نام ہیں- خیر مجھے ناموں میں کوئی دلچسپی نہیں میں کام میں دلچسپی رکھنے والوں میں سے ہوں- گلاب کو جس بھی نام سے پکارو وہ گلاب ہی رہتا ہے، میں بھی اسی اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہوں-
یہ بھی آپ جانتے ہی ہیں میرا قیام شروع سے ہی جنت میں تھا، میں اللہ کی مخلوق میں شامل تھا- جب تک میں جنت میں رہا، دن رات خدا کی عبادت کرتا رہا ان دنوں مجھے خدا سے ایسا ہی عشق تھا- عبادت تو جنت میں موجود اور بھی مخلوق کرتی تھی پر مجھے لگتا تھا جتنے عشق سے میں کرتا ہوں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، مجھے یاد نہیں میں نے کتنا عرصہ عبادت کی اور یہ یاد رکھنے والی بات ہی نہیں اپنے خالق کے پاس تھا کتنے ہفتے، کتنے مہینے، کتنے سال، کتنی صدیاں اور کتنے زمانے میں نے عبادت کی وقت کا کوئی حساب نہ تھا- پر ایک دن اللہ نے مجھے جھٹکا دیا،
اور وہ جھٹکا آپ کی صورت میں دیا تھا یعنی انسان کی صورت میں
مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب اللہ تم کو ہمارے سامنے لایا اور بتایا کہ یہ انسان ہے اور اسے زمین پر نائب بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، پھر فرشتوں نے اللہ سے پوچھا کہ کیا وہ اس انسان کو نائب بنا کر بھیجے گا جو زمین پرجا کر فساد پھیلاے گا؟ میں بھی خوش ہوا کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے اب اللہ اپنا فیصلہ بدل دے گا- مگر اللہ نے جواب میں فرمایا تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں اور پھر اللہ نے ہم سے کچھ چیزوں کے نام پوچھے مجھ سمیت سب سوچ میں پڑ گئے اور ہم جواب ہی نہ دے سکے، پھر اللہ نے وہی چیزوں کے نام انسان سے پوچھے، میرا ایک لمحے کے لیے سانس رک گیا جب انسان نے تمام سوالات کے آسانی سے جواب دیے مگر یہ حیرت صرف ایک لمحہ کے لیے رہی تھی میں جان گیا تھا کہ ان سوالوں کے جواب دینے کی صلاحیت انسان کہ اپنے پاس نہیں تھی یہ اللہ کا خاص تحفہ تھا جو انسان کو عنایت کیا گیا، یہ تو مجھے بعد میں پتا چلا کہ اس تحفے کو علم کہتے ہیں-
اس وقت مجھے انسان سے بے تحاشا حسد ہوا کہ اللہ نے کتنی آسانی سے اسے اتنا بڑا تحفہ عطا کر دیا، تو جب اللہ نے کہا کہ انسان کو سجدہ کرو میں تو غصہ اور حسد سے پاگل ہو گیا آج تک میں تو بس خدا کو سجدہ کیا کرتا تھا میں کسی اور کے آگے کیوں جھکتا وہ بھی مٹی سے بنے انسان کے آگے- ہاں اللہ کے نزدیک سب برابر ہیں وہ آگ ہو، پانی ہو، نور ہو یا مٹی وہ کسی قسم کہ اسٹیٹس میں دلچسپی نہیں رکھتا، مگر میں اسٹیٹس کونشیئس ہوں میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ میں آگ سے بنایا گیا ہوں جو ہر حال میں مٹی سے برتر ہے- مجھے تو اپنی عبادت پر بھی بہت ناز اور غرور تھا، اب آپ کہیں گے کہ ناز اور غرور نہیں ہونا چاہیے تھا……بلکل! نہیں ہونا چاہیے تھا مگر مجھے تھا کیونکہ میں نے آپ جیسی عبادت نہیں کی تھی……واقعی عبادت کی تھی-
میں نے اللہ سے صاف انکار کر دیا کہ میں سجدہ نہیں کروں گا کبھی نہیں کروں گا، اللہ کو میرے انکار پے غصہ آیا اور مجھے جنت سے نکلنے کا حکم دیا اور میرے لیے عزاب کا اعلان کر دیا تب میں نے اللہ سے درخواست کی کہ وہ مجھے اتنی اجازت دے کہ میں ابد تک انسان کو بھی اسی طرح نافرمانی پر مجبور کرتا رہوں، جس طرح سے انسان کی وجہ سے میں نافرمانی پر مجبور ہو گیا- اللہ نے میری درخواست قبول کر لی- اس وقت میں نے اللہ سے کہا میں انسان پر بار بار وار کروں گا- اللہ نے فرمایا جو میرے بندے ہونگے وہ کسی فریب میں نہ آیئں گے- اللہ نے اس دن مرد کے ساتھ ایک عورت بھی بنائی- وہ جنت کے باغوں میں پھرا کرتے تھے میں انھیں گمراہ کرنے کے لیے منصوبے بناتا رہا، سب سے پہلے مجھے ان کا باہمی اعتماد ختم کرنا تھا- میں جانتا تھا کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے قریب جانے سے اللہ نے انسان کو منع فرمایا ہے، میں نے دن رات ایک کر دی آخر کار میں نے انھیں بہکا دیا وہ نا صرف درخت کے پاس گے بلکہ انہوں نے پھل بھی کھایا- اللہ نے انہیں جنت سے نکال کے زمین پر بھیج دیا مجھے یہ سزا کم لگی لیکن خیر میں بھی ان کے ساتھ ہی زمین پر آگیا- مجھے بڑا غصہ آیا وہ دونوں اللہ سے رورو کر معافیاں مانگ رہے تھے اور اللہ نے بھی ان کو معاف کر دیا اور ان کو ملا دیا-
میں نے انسان سے وہ کچھ کروایا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا- میں مرد کے دل میں یہ ڈالتا رہا کہ عورت کم عقل ہے اور خود مرد ہر غلطی سے پاک ہے اور عورت کے دل میں یہ ڈالتا رہا کہ مرد کے نزدیک اسکی کوئی اہمیت نہیں- اس کے بعد کامیابیوں کا طویل سلسلہ میرے حصے آیا، ناکامیاں بھی آیئں جیسے پیغمبروں نے مجھے ذلیل و نامراد کیا- یاد ہے نا حضرت ابراہیم علیہ السلام ……… کیا کیا نہیں کیا میرے ساتھ، میں نے اتنا بیٹے کی قربانی سے روکا مگر کسی فریب میں نہیں آئے، پھر ان کی ہی نسل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے جن کو اللہ نے کہا “میرا محبوب” وہ کیا آتے میرے فریب میں- پھر پیغمبر نے ہی نہیں بلکہ صحابہ اکرام نے بھی مجھے دھتکارہ- ایک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ تھے جنہیں دس فٹ دور سے دیکھ کر میں بھاگ جایا کرتا تھا-
عورتوں کی بات کروں تو میں کافی ناکام ہوا، کبھی مجھے حضرت مریم علیہا السلام کا سامنا کرنا پڑا تو کہیں رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کا….کہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا میرے سامنے آئیں تو کبھی حضرت حاجرہ علیہا السلام، کہیں کامیابی نہیں ملی- مگر میں ناکامی سے گھبرایا نہیں کوشش کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج میں انسان سے جو چاہے کروا لوں، جیسے آپ نے تو میرے کہنے پر جہیز کے نام پر عورت کو بھی جلایا ہوا ہے، بھولے تو نہیں نا ؟؟؟ خیرچھوڑیں! میری زندگی جتنی بامقصد آج ہے پہلے نہیں تھی-
مگر! اس سب کے باوجود کبھی کبھی مجھے خوف آتا ہے، رات کو نیند نہیں آتی- وہ خوف ان لوگوں کا سوچ کر آتا ہے جن کو اللہ نے میرے بندے کہا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ہے، یہ بھی پتا ہے کہ دنیا میں وہ بندے ابھی بھی ہیں- اور اگر .. اگر .. وہ بندے بڑھنا شروع ہو گئے تو؟ کیا ہوگا؟؟ میرا کیا ہوگا؟؟؟
مگر پھر مجھے آپ سب کا خیال آتا ہے “آپ سب کا” اور پھر میں ایک گہری سانس لے کر سو جاتا ہوں-
آپ سب کے لیے بہت سی بددعاوں اور نفرت کے ساتھ!
آپ کا اپنا شیطان!