قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہ، خَلَقْتَني مِن نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ﴿سورۂ ص﴾
(شیطان نے) کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں؛ تُو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کسی چیز میں کسی بندے سے زیادہ ماہر ہوں۔۔۔ اور اس کا مظاہرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔ لیکن اس باعث کسی کو کم تر سمجھنا، یہ برا ہے۔۔۔ جیسے آپ کو ریاضی بہت زبردست آتی ہے۔۔۔ جب کہ دوسرے بندے کو یہی آخری مضمون لگتا ہے جس کو وہ چنے پڑھنے کیلئے۔۔۔ تو اب اس کو ریاضی نہیں آتی تو کیا اس باعث وہ آپ سے کم تر ہو گیا ہے۔۔۔!؟ نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور چیز میں آپ سےبہتر ہو۔۔۔ تو شیطان نے جو کہا کہ میں اس سےبِہ تر ہوں۔۔۔ تو اس کی وجہ بھی ساتھ ہی بتا دی کہ اس کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھے آگ سے۔۔۔ حالانکہ یہ کوئی فوقیت کی بات تو نہیں تھی۔۔۔ اعمال و تقوی اصلی چیزیں تھیں (اور ان کی بنیاد پر بھی کسی کو کسی پر فوقیت دینا مخلوق کا کام نہیں، خالق کا کام ہے۔۔۔!) تو اس کے اس غرور کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی نے اسےدنیا و آخرت میں مردود ٹھہرا دیا۔۔۔!
ادھر ‘انا خیر منہ’ کی نئی شکلیں مروج ہیں اب۔۔۔ کہ جو پڑھے لکھے ہیں وہ اپنے ذہن کے انتہائی گوشوں میں کم پڑھے لکھوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔۔۔ گویا شیطان کہہ رہا ہو کہ اے ربّ، تُو نے اسے مٹی سے بنایا ہے اور مجھے آگ سے۔۔۔ میرے پاس زیادہ تعلیم ہے اور اس کے پاس کم۔۔۔ میرے پاس زیادہ مال ہے اور اس کے پاس کم۔۔۔ ہمارے پاس اپنا گھر ہے اور وہ بےچارہ تو کرائے پر ہے۔۔۔ میں نے تو ماسٹرز کیا ہوا ہے اور اس نے صرف حفظ۔۔۔ مذہبی تعلیم بھی کوئی تعلیم ہوتی ہے۔۔۔!؟ مکینیکل انجینئرز، سول انجینئرز سے افضل ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے ہم دونوں نے ایک ہی انجینئرنگ کی ہوئی ہے، مگر میرے پاس تو دین کا علم اضافی بھی ہے۔۔۔! اور اس طرح کے ہزاروں رجحانات۔۔۔ ہر کوئی اپنا علیحدہ بُت بنا کر بیٹھا ہوا ہے۔۔۔!
مطلب جو چیزیں ہمیں نعمت کے طور پر عطاء ہوئی ہیں ان کا شکر کرنا تو دور، ہم تو انھی کو بنیاد بنا کر تکبر کر رہے ہیں؛ گویا مزید نافرمانی ربّ کی۔۔۔!
اور اگلی آیات میں ربّ فرماتا ہے:
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ-
(ربّ نے) کہا کہ بس نکل جاؤ اس (جنت) سے؛ پس تم مردود ہو۔
وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ۔
اور بےشک تم پر انصاف کے دن تک میری لعنت ہے۔
اور اس لعنت کی ایک مثال تو یہ تھی کہ اس پر جہنّمی ہونے کی مہر ثبت کر کے جنّت بہ در کر دیا گیا۔۔۔ اور دوسری بڑی مثال یہ ہے کہ مٹی، ریت اور کیچڑ وغیرہ کو اس پر فوقیت دے دی اس دنیا میں۔۔۔ کہ آگ پر قابُو پانے کیلئے ہم مٹی استعمال کرتے ہیں۔۔۔ گویا آگ کو دباتے ہیں۔۔۔ یعنی جس چیز پر اس نے اپنے تکبّر کی بِنا رکھی تھی اسی سے اس کو زیر کر لیا گیا؛ کہ ‘خلقتنی من نار و خلقتہ من طین’۔۔۔ پھر کون مردود ٹھہرا۔۔۔!؟ مگر ہم غور ہی کہاں کرتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالی بیان کرتا ہے مگر ہم غفلت میں پڑے ہیں اور تکبر سے باز نہیں آتے۔۔۔ کہیں ہمیں بھی اللہ تعالی انھی چیزوں کے باعث پکڑ میں نہ لے لے جن کے باعث ہم اپنے آپ کو عجیب شے سمجھتے ہیں۔۔۔ چاہے وہ کتنی ہی خوش نُما اور نیک بات کیوں نہ ہو۔۔۔! ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِکُم مِّنْ جِنَّۃٍ! ﴿سبا ع- ۴۶﴾