سعادت حسن منٹو ١١ مئی (١٩١٢-١٩٥٥)


ٹوبہ ٹیک سنگھ

پاکستان اور ہندوستان کے بٹوارے کے دو تین سال بعد حکومتوں کو خیال آیا کہ قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے حوالے کردیا جائے۔ یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہوگیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے، وہیں رہنے دیے گئے تھے جو باقی مسلمان، ہندو اور سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے-

سعادت حسن منٹو

ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا،

’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا،
’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔

بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر، پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائداعظم کہتے ہیں ۔ اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب جو پاگل نہیں تھے۔ اس مخصمے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگرہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے! اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ عرصے پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے!

ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہوگیا۔ جھاڑو دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنی پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تووہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا،

’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں، میں اس درخت پر ہی رہوں گا۔‘‘

ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہریداروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں، مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی وہ غور سے سنتا تھا۔ پھر اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے، خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے، کیا پتہ ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے- اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے- آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے، وہ اس کے متعلق جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار مہینے میں ایک بارملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔ اس کی ایک بیٹی تھی بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس کے لیے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ ان سے پوچھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟

تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔ سخت سردیاں تھیں، جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو، سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ د ستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا،

’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘
متعلقہ افسر ہنسا، ’’پاکستان میں۔‘‘

یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کردیا، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے۔‘‘

اسے بہت سمجھایا گیا، مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلاسکے گی۔ آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی۔ اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔ سورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔

درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔

Saadat Hasan Manto
(1912-1955)


اپنا تبصرہ بھیجیں