وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے
سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں پہ سجدے
چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے
وہ صحرا بیاباں کےسینوں پہ سجدے
علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے
وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے
وہ جنگوں جدل میں حراست میں سجدے
لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے
وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے
وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے
وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے
وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے
وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے
غموں کے مقابل عطردار سجدے
نجات اور بخشش کے سالار سجدے
جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟
ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے
خیالوں میں الجھے ہوے چار سجدے
مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے
چمکتی دیواروں میں لاچار سجدے
ریا کار سجدے ہیں نادار سجدے ہیں،
بے نور، بے ذوق مردار سجدے
سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے
دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے
ہیں مفرور سجدے ہیں مغرور سجدے
ہیں کمزور ، بے جان، معذور سجدے
گناہوں کی چکی میں ہیں چُور سجدے
گھسیٹے غلاموں سے مجبور سجدے
کہ سجدوں میں سر ہیں بھٹکتے ہیں سجدے
سراسر سروں پر لٹکتے ہیں سجدے
نگاہ خضوع میں کھٹکتے ہیں سجدے
دعاؤں سے دامن جھٹکتے ہیں سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟
چلو آؤ کرتے ہیں توبہ کے سجدے
بہت تشنگی سے توجہ کے سجدے
مسیحا کے آگے مداوا کے سجدے
ندامت سے سر خم شکستہ سے سجدے
رضا والے سجدے، وفا والے سجدے
عمل کی طرف رہنما والے سجدے
سراپاِ ادب التجا والے سجدے
بہت عاجزی سے حیا والے سجدے
نگاہوں کے دربان رودار سجدے
وہ چہرے کی زہرہ چمک دار سجدے
سراسر بدل دیں جو کردار سجدے
کہ بن جائیں جینے کے اطوار سجدے
خضوع کی قبا میں یقین والے سجدے
رفا عرش پر ہوں زمیں والے سجدے
لحد کے مکین ہم نشیں والے سجدے
ہو شافع محشر جبین والے سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں ؟