تکبٌر کے موسم میں
سازگار ہوائیں نہیں چلا کرتیں
انسان کا غرور اور تکبر شیطان کی انا اور اکڑ سے بھی اوپر چلا جاتا ہے- بعض اوقات دولت، خاندانی حسب و نصب اور دیگر عوامل اس کو اس گھٹیا اور بری سوچ میں ڈال دیتے ہیں کہ یہ فرعونیت اور نمرودیت میں مبتلا ہو جاتا ھے- عام لوگوں میں یہ ظالم اور متکبر مشہور ہو جاتا ہے- لوگ اس کے شر کی وجہ سے اس کی عزت کرتے ہیں- اور انسان کی یہ کیفیت اس کو ذلیل بنا دیتی ہے-
اسی طرح اگر کسی آدمی سے تھوڑا اوپر ہوں تو اپنے سے نیچے والے کو حقیر سمجھنااور اس کی بات سنی ان سنی کر دینا- ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہزار بار اپنے آپ کو اس سے بڑا سمجھنا تو یہ عمل جنت سے جانے سے روک سکتا ہے-
اگر انسان اپنی پیدائش کے عمل پر غور فرمائے تو یہ عمل اس کا غرور اور تکبر توڑنے کے لیے کافی ہے- اگر وہ یہ غور کر لے کہ وہ ایک جراثیم تھا جو آگے منتقل ہوا تو یہ عاجزی اور انکساری لانے کے لیے کافی ہے- تکبر صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے- اللہ پاک میں سب کچھ ہے مگر عاجزی نہیں- اور اللہ عاجز لوگوں کو ہی پسند فرماتا ہے- ہمیشہ جھکی ہوئی شاخ پھل دیتی ہے، اکڑ ی ہوئی ٹہنی تیز ہوا میں ٹوٹ جاتی ہے-
خاکساری اُن خاص اخلاق میں سے ہے جن کی قرآن کریم وحدیث نبوی ﷺ میں بہت زیادہ تاکید فر مائی گئی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بندہ ہے اور بندہ کا حسن وکمال یہی ہے کہ اُ س کے عمل سے بندگی اور نیاز مندی ظاہر ہو، اور تواضع اور خاکساری بندگی اور عبدیت ہی کا مظہر ہے قرآن کریم میں فر مایا گیا ہے ۔
وَ لَہُ الْکِبْرِ یَآئُ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَھَوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ (جاثیہ :۴۵: ۳۷)
اور اسی کیلئے کبر یائی اور بڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی ہے زبر دست اور حکمت والا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں اس کا جوتا بھی اچھا ہو تو کیا یہ غرور اور گھمنڈ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق بنائے (یعنی اپنی انا کی وجہ سے حق بات کو رد کردے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی)
بہترین پوسٹ کرتے ہو یہ اپکا پوسٹ دل کو چھو جاتا ہے