آواز دی تو اپنے ہی اندر ملا مجھے


میں وادی حرم تک اُسے ڈھونڈنے گیا
آواز دی تو اپنے ہی اندر ملا مجھے

بے شک اللہ تعا لیٰ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ : جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں

حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی بڑی عجیب توجیہ فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تو ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ‘‘ ذات ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کے لیے مثال دیتاہوں کہ دو کاغذوں کو جب گوند کے ذریعے جوڑا جاتا ہے تو کاغذاول کاغذ ثانی کے قریب ہوجاتاہے لیکن ان کو جوڑنے والی گوند کاغذ اول کی بنسبت کاغذ ثانی سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔انسان کی شہ رگ انسان کے قریب ہے تو اللہ فرما رہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں۔ دو جڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک کاغذ دوسرے کے قریب ہے لیکن گوند دوسرے کاغذ کے زیادہ قریب ہے ،اسی طرح شہ رگ انسان کے قریب ہے لیکن اللہ اس سے زیادہ قریب ہے۔

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ (سورہ واقعہ؛85)
ترجمہ : تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔

ارشاد باری تعالٰی ہے کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ “

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “سورہ الحدید :4،الکتاب – ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324

اللہ تعالیٰ ایک اور یکتا ہے،لیکن اپنے علم اور قدرت کی بدولت ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے اجسام کی طرح وہ بھی کسی خاص مکان کو گھیرے ہوئے ہے۔اللہ تعالیٰ کو ایک اور یکتا کہہ کر ہم ان کی جلالتِ شان اور عظمت کا اظہار کرتے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ وہ ہر جگہ موجود ہے تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی رحمت و رحیمیت اور علم و قدرت کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔اللہ کے لیے مثلِ اعلیٰ ہے، لیکن بلاتشبیہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ سورج کی ان شعاعوں کی مانند ہے،جو اگرچہ ہمارے سروں کو چھو رہی ہوتی ہیں،لیکن وہ ہماری پہنچ سے بہت دور ہوتی ہیں،دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ذریعے ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہم سے ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے، لیکن ہم اس کی عظمت کو نہیں پا سکتے۔ارشادِخداوندی ہے: ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق:۱۶)‘‘اور ہم تو رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘

بے شک اللہ تعالیٰ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب خداتعالیٰ ہر جگہ حاکم و نگران ہے، لیکن وہ کیف و کم سے پاک ہیں۔وہ ﴿ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہِ ﴾(الأنفال:۲۴)‘‘آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔’’ لہٰذا وہ مجھ سے میرے دل سے زیادہ قریب ہے۔اگر میں کہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے دل میں ہیں تو یہ درست ہو گا،کیونکہ وہ میرے بارے میں خود مجھ سے زیادہ جانتے ہیں،نیز ﴿ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللّہَ رَمَی﴾(الأنفال:۱۷) ‘‘اور اے نبی جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔’’سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر اور دیگر مواقع پر رسول اللہﷺکے نام پر خود رمی کی تھی،لہٰذا بشمول رمی کے اللہ تعالیٰ ہر چیز پر اثرانداز ہے۔ مذکورہ بالاآیت جیسی آیات کی رُو سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت،علم، رحمانیت، رحیمیت، جمال، جلال،علم،ارادہ اور دیگر تمام صفات کے ذریعے نہ صرف ہرجگہ موجود ہے،بلکہ حاکم و نگران ہے۔

Mein Wadi-e-Harram Takk Usay Dhoondne Gya
Awaz Di To Apnay Hi Andr Mila Mjhy


اپنا تبصرہ بھیجیں