زمین ہلا دی جاتی ہے


جب انسانوں کے ضمیر سو جائیں
تو زمین ہلا دی جاتی ہے

حضرت انسؓ فرماتے ہیں: میں ایک شخص کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ’’ام المؤمنینؓ ہمیں زلزلے کے متعلق بتائیے کہ وہ کیوں آتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا ’’ جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنالیں تو اﷲ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کر دے، بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کرلیں اور بداعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے گورنروں کو پیغام بھیجا تھا کہ ’’سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں۔ تم لوگ صدقہ خیرات کرتے رہا کرو اور استغفار میں لگے رہو۔ نیز حضرت آدمؑ کی دعا ’’اے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اگر تو ہمیں معاف نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘ کثرت سے پڑھا کرو۔‘‘

(الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی54، 53، مصنفہ ابن القیم)



دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا،اسلام نام ہے سرِ تسلیم خم کردینے کا، ایک مسلمان کو ایسے مواقع پر قرآن حدیث اور تاریخ امم کی روشنی میں لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، زمانہ سے مرعوب ہونا، ناقص ایمان کی علامت ہے، اسلام جذب کا قائل ہے انجذاب کا نہیں، ایسے موقع پر بالخصوص قدرتی آفات کے وقت ہم مسلمانوں پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ایک خودکو سنبھالنااور عقیدے کی حفاظت کرنااور دین سے بیزار اور دینی علم سے دور مسلمان بھائیوں کے عقیدے کی حفاظت کرنا کہ کہیں اس میں تزلزل پیدا نہ ہوجائے۔

بعض لوگ زلزلے کو محض سائنس کا ہی کرشمہ تصور کرتے اور اس کے اسباب کو سائنسی وجوہات کے زاویے سے ہی پرکھتے ہیں۔ جب کہ اہل اسلام کا اس کے بارے میں نظریہ وہی ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ سائنسی وجوہات کا دارومدار بھی تو اﷲ احکم الحاکمین کے حکم پر ہے۔ اس لیے محض سائنسی وجوہات تک محدود رہنے کی بجائے اس کے آگے اﷲ رب العزت کے حکم اور ارادے کو جاننا اور ماننا چاہیے۔



Jab Insano Kay Zmeer So Jaen
To Zmeen Hlaa Di Jati Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں