والدین اور اولاد کی خواہشات


اپنی خواہشات کو دبا کر اولاد کی خواہشات
کو پورا کرنا کوئی والدین سے سیکھے

بے شک والدین اپنی اولاد کے لیے بہت سی قربانیاں دیتے ہیں بلکہ ان کی پوری زندگی ہی اس قربانیوں میں گزر جاتی ہے والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا،جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک مت کہو،سور ہ بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصو صی اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔

والدین کا ایک ایسا رشتہ ہے اس جیسا رشتہ شاید دنیا میں نہ ہوجب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو والدین اپنی نیند کی پرواہ کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پرواہ کرتے ہیں اپنی بیماری کی پرواہ کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو اٹھا کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہیں، جو بھی ہو اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام دیتے ہیں اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا۔

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایااگر جنت کمانی ہوتو اپنے والدین کی خدمت کرو ‘ والدین جو حکم دیں ان کو بجالاؤ ان کے آگے اف تک نہ کرو، جب وہ باہر سے آئیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو اِن کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی ،ترجمہ، اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔

والدین ا للہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے ۔یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد وہ باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش وپرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے ،اس کو تعلیم وتربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑاہاتھ ہوتاہے اس کی پائی پائی کی کمائی کا بیشتر حصہ اولاد کے لیے صرف ہوتا ہے اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی سے خوشی کو حقیقی معنی میں محسوس باپ ہی کرتا ہے ۔ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کاانمول حصہ اولاد کی نذر کردیتاہے۔

باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایاباپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں آپﷺ نے جواب دیاتو او رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے ۔ باپ کے سامنے اونچا نہ بولو ورنہ اللہ تعالی تم کو نیچا کردے گا۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

Apni Khwahshat Ko Dba Ker Aulad Ki Khwahshat
Ko Pura Krna Koi Waldain Say Sikhay


والدین اور اولاد کی خواہشات” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں