عورت کی خوبصورتی حیاء میں
اور تحفظ حجاب میں ہے
عورت کے معنی چھپی ہوئی چیز کے ہیں۔عورت چونکہ ایک ڈھکی چھپی چیز ہے اور اس کو جتناچھپاؤ گے اتنی ہی اسکی عزت بنے گی، اتناہی اسکے وقار میں اضافہ ہو گا ۔عورت جب تک چھپی رہے گی اسکی معصومیت اور حسن برقرار رہے گا۔ ڈھکی ہوئی چیز ہر ایک کو اچھی لگتی ہے۔
جیسے ہی ڈھکی ہوئی چیز کھلتی ہے تو اسکا حسن ماند پڑنے لگ جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے تاکہ لوگ اسکی عزت کریں۔ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور معاشرے میں عورت کا وقار قائم رہے۔کائنات کے رنگوں کو عورت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بیٹی کی صورت میں گھر کی چہکار ، بہن کی صورت میں گھر کی رونق ، بیوی کی صورت میں سکون اور، ماں کی صورت میں خالص محبت ہے لیکن اب ہم نے ان باتوں کو بھلا دیا ہے۔ عورت جس کا نام ہی پردہ ہے۔ آج وہ اپنا حجاب بھول کر فیشن میں کھو گئی ہے۔ بے پردگی کو اپنا عروج ماننے لگی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ہم نے بے پردگی کو اپنا کر نہ صرف مغربی تہذیبوں کو فروغ دیا ہے بلکہ حجاب کے تقدس کو پامال کیا ہے اور وقار نسواں کو بھی مجروح کیا ہے۔ جب عورت پردے میں ہوتی ہے تو دیکھنے والے کی نگاہیں خود بخود ہی احترام میں جھک جاتی ہیں۔ عورت پردہ کر کے اپنا احترام خود کرواتی ہے۔ بے پردہ چیز کو تو ہر کوئی دیکھے گا ۔اس لیے اسلام میں عورت کو پردے کا سختی سے حکم ہے ارشاد ربانی ہے
’’اے نبی ﷺ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں کو اورمومنوں کی عورتوں کو فرما دے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لیا کریں یہ قریب تر ہے ہے کہ انکی پہچان ہو جائے اور اﷲ بخشنے والا نہایت مہربان ہے”( سورۃ احزاب)
ایک مضبوط اور پاکیزہ معاشرہ کی بنیاد ایک مضبوط و پاکیزہ خاندان ہے ، اور ان دونوں معاشرہ و خاندان کی پاکیزگی و پاکدامنی کی سب سے اہم بنیاد عورت ہے۔ عورت کی عزت، اس کا وقار، اس کی سربلندی ہی معاشرہ کی ترقی کا ضامن ہے۔کسی قوم و معاشرہ کیلئے عورت ہی کُل سرمایہ ہوتی ہے۔ اگر عورت پاکیزہ و پاکدامن ہوتو یقینا وہ پورا معاشرہ بھی پاکیزہ و پاکدامن ہو گا۔اگر عورت بگڑ جائے تو پورے معاشرے کو اخلاقی زوال اور برائیوں کے دلدل میں پھنسا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے عورت کی قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت و اہمیت وارد ہوئی ہے۔ اگر کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی عورتوں کا بگڑ جانا ہے۔ ایک عورت جب آبرو باختہ و بے پردہ اور فاحشہ ہوجا تی ہے تو اس کا اثر صرف اس تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات بہت دور دور تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اس کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے، حیا تمام تر اخلاقی اقدار کا سرچشمہ ہے، حیا انسان کو برائی سے روکتی ہے اور اچھے کاموں کی ترغیب دلاتی ہے، حیا ان اخلاقی اقدار میں شامل ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے معتبر اور مطلوب ہیں، حیا سے اشرف المخلوقات سمیت فرشتے بھی موصوف ہیں، آدم، نوح، موسی سمیت تمام کے تمام انبیائے علیہم السلام حیا سے آراستہ تھے.
ہمارے نبی ﷺ سب سے زیادہ با حیا تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے، حیا خواتین کا فطری زیور اور زینت ہے، اسی لیے سیدہ عائشہ اور دیگر صحابیات حیا کی پیکر تھیں، بلکہ اہل جاہلیت بھی حیا پر قائم دائم تھے، نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق حیا سرتا پا خیر ہی خیر ہے، حیا کی وجہ سے ہمیشہ خیر ہی برآمد ہوتی ہے، حیا کی بدولت انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے، حیا چھن جائے تو یہ ایمان چھن جانے کی علامت ہوتی ہے، اور جب حیا ہی نہ رہے تو انسان جو چاہے کرتا جائے.
اگر انسان میں گناہ کرے تو اس سے حیا میں کمی آ جاتی ہے، حیا کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے، جو شخص اللہ تعالی سے حیا کرے تو اللہ تعالی بھی اس کی لاج رکھ لیتا ہے، حیا کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے حیا کرے، حیا ایک نور ہے جو انسان کو خلوت و جلوت میں استقامت پر مجبور کرتا ہے، دل میں حیا پختہ کرنے کیلیے اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات کو یاد کریں اور اس کے مقابلے میں اپنی کارستانیوں کو مد نظر رکھیں۔
Nice