اتنا بُرا ہوں میں


احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں
مجھ کو خبر کہاں تھی کہ اتنا بُرا ہوں میں

خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں

اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں

تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
پہلے سمجھ تو جاؤں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟

کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں

مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں

اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں

باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں

رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں

ہاں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں

میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسنِ خود پرست، ترا آئینہ ہوں میں

جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں

پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں

عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟

عرفان ستار

Ahbaab Ka Karam Hai Kay Khud Par Khula Hun Mein
Mujh Ko Khabar Kahan Thi Kay Itna Bura Hun mein


اپنا تبصرہ بھیجیں