دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی
ہر ورق کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا
یادوں کا تعلق ماضی سے ہے۔ اس کی جڑیں ہمارے دلوں کی زرخیز مٹی میں پھیلی رہتی ہیں اور مضبوطی کے ساتھ ہمیں اپنے جال میں جکڑے رہتی ہیں۔ ان ہی کے تانوں بانوں سے ہمارے ماضی کی چادر بنی ہے – زندگی تو جیسے مسلسل تبدیلیوں کا ہی نام ہے، وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں، طور طریقے بدل جاتے ہیں، اور کبھی کبھی اکثر ہم خود بدل جاتے ہیں، البتہ کچھ لوگوں کے لئے تو یادیں انمول ہوتی ہیں، اور یادوں میں ماضی کے گزرے کچھ لمحے صدیاں بن جاتے ہیں، اور وہ صدیاں ماضی کے ان ہی دریچوں میں روشن دیوں کی طرح ہمیشہ جلتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ یہ زندگی کی مسلسل تبدیلیوں کا خوف ہی ہے کہ انسان ان دیوں کو جلائے رکھتا ہے۔
یادیں بچھڑے ہوئے لوگوں کو بلا لاتی ہیں۔ ان میں ہمارے ماں باپ کے ساتھ گزرا زمانہ بھی ہوتا ہے۔ بہن بھائی کے ساتھ چھیڑ خانی بھی، سکول کالج میں دوستوں کی خوش گپیاں بھی۔ کیا کچھ نہیں ہوتا، ان یادوں کی زنبیل میں۔ یہ ضروری نہیں کہ یادیں مرجانے والوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں یہ تو زندہ افراد سے بھی جڑی رہتی ہیں جو حالات بدلنے پر آپ سے جدا ہوکر کسی دوسرے شہر یا ملک چلے جائیں۔ دنیا کا نقشہ بدل جائے، حکومتیں بدل جائیں مگر یادیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔یادیں اچھی ہو یا تکلیف دہ ان سے روز ہی کسی نہ کسی بہانے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے۔ کبھی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں یادیں اچھی ہوں یا بری بس زندگی ان ہی کی مرہون منت ہے کبھی اپنی غلطیوں کی طرف توجہ ہو جاتی ہے تو کبھی اچھی باتوں کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے آگاہی بھی ہوتی ہے، اور مجھے تو لگتا ہے کہ یادیں اکثر معلم بن کر ہمیں تعلیم بھی دیتی ہیں کہ تبدیلی حق ہے اس کے لئے تیار رہو۔
یادیں تو تو ماضی سے رشتہ جوڑے رکھنے کے لیے اور اپنی جڑیں اپنے گزرے کل اور گزرے کل کے ساتھیوں میں مضبوط رکھنے تک ہی رہیں تو بہتر ہیں، انہیں روگ نہ بنائیے، جو بیت گیا سو بیت گیا، جو بیت رہا ہے اور جو بیتنے والا ہے اس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک خوبصورت اصول تو یہ ہے کے انسان زندگی میں ان یادوں کو جگہ دے جو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دے اور ان لوگوں کی یاد کو دل میں رکھے جن کی نظر میں وہ انمول ہو ورنہ زندگی کے سفر میں اتنے یادوں کا بوجھ لے کر چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔