جو شخص انتقام کے طریقوں پہ غور کرتا رہتا ہے


جو شخص انتقام کے طریقوں پہ غور کرتا رہتا ہے
اس کے زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں

زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور غیظ و غضب سے رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ فوری طورپر انتقامی کارروائی کی جائے، جیسا بھی ہوسکے سامنے والے کو اپنی برتری اور طاقت کا ایسا کرشمہ دکھایا جائے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ کے لیے زیر ہوجائیں، ممکن ہے اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے اور مختلف خطرات سے نجات بھی؛ مگر اسلام نے جذبات میں آکر کسی فیصلہ کی اجازت نہیں دی ہے، تمام ایسے مواقع پر جہاں انسان عام طورپر بے قابو ہوجاتا ہے، شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل وہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہوکر واقعات کے بارے میں سوچنے اور غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے، جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”صبر“ کہاجاتا ہے۔ قرآن میں ” صبر“ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے، اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیا جائے یعنی حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصہ اور اشتعال کے بجائے تحمل، بردباری اور برداشت سے کام لیا جائے- ارشادِ باری ہے:

وَ لَاتَسْتَوِیْ الْحَسَنَةُ ولا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ فَإذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبیْنَہ عَدَاوَةٌ، کَأَنَّہ وَلِیٌّ، حَمِیمٌ، وَ مَا یُلَقّٰھَا اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ مَا یُلَقّٰہَا اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْم۔ (سورہ فصلت: ۳۴)

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو،پھر تو تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے وہ ایساہوجائے گا گویا دوست ہے ناتے والا اور یہ بات ملتی ہے انھیں کو جنھیں صبر ہے اور یہ بات ملتی ہے اس کو جس کی بڑی قیمت ہے۔

جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوشگوار واقعہ پر کسی بھائی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے؛ اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔ (سورہ فاطر: ۶)

جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے، اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔ قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مارنے کی دھمکی دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسمِ اطہر پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہزار گستاخیاں کیں؛ مگر کوئی ایسی مثال نہیں کہ غیظ و غضب سے بے قابو ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کارروائی کی ہو، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک اشارہ میں ہزاروں خون آشام تلواریں نکل سکتی تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں کا کام تمام کرنے کے لیے کافی ہو جاتیں؛ مگر قربان جائیے رحمت ِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اس راہ کو اختیار کیا اور نہ مسلمانوں کو اس کی ہدایت دی؛ بلکہ موقع بہ موقع آپ صحابہٴ کرام کے جذبات کو سکون دینے کی کوشش کرتے اور انھیں صبر و ضبط تواضع و بردباری کا سبق سکھاتے رہتے- غرض پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کے رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دوررس نگاہ متأثر ہوجاتی ہے اور سوچ و تدبر کا مزاج نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبوی کے اس پہلو کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔

Jo Shakas Inteqaam Ke Tareeqon Par Ghoor Karta Rehta Hai
Us Kay Zakham Hmesha Zinda Rehtay Hain


جو شخص انتقام کے طریقوں پہ غور کرتا رہتا ہے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں