مُـــحَمَّــــــد ﷺ : بڑی شان والے


مُـــحَمَّــــــد ﷺ
ہمارے بڑی شان والے

"بڑی شان والے"



اﷲ تعالیٰ’’رحمن‘‘ ہیں. رحیم ہیں اور ارحم الراحمین ہیں. سبحان اﷲ! رحمت ہی رحمت. ہمارا رب رحمت کاخالق، رحمت کا مالک اور رحمت کو نازل فرمانے والا.

اورہمارے آقا حضرت محمد ﷺ. رحمۃ للعالمین ہیں. جی ہاں! تمام مخلوق کے لئے اﷲ تعالیٰ کی رحمت. سب سے بڑی رحمت. سراپا رحمت. بے شک رحمت ہی رحمت .

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ﴿انبیائ:۷۰۱﴾
اے نبی محمد﴿ ﷺ﴾ ہم نے آپ کو تمام جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.

حضرت آقا محمد ﷺ صرف’’رحمت‘‘ ہی نہیں. بلکہ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہیں. یعنی تمام جہان والوں کے لئے رحمت. وہ انسان ہوں یا جنات. حیوانات ہوں یا نباتات. سمندر ہوں یا جمادات. وہ زمین ہوں یا آسمان. آپ ﷺ ان سب کے لئے’’رحمت‘‘ ہیں. اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت. آپ کا نام بھی’’رحمت‘‘ اور آپ کا دین بھی ’’رحمت‘‘. جو آپ ﷺ سے جتنا قریب وہ اسی قدر زیادہ رحمت کا مستحق. اور جو آپ سے جتنا دور اور محروم وہ رحمت سے اسی قدر محروم. ارے جس کو رحمت پانی ہو وہ حضرت آقا ﷺ کی غلامی میں آجائے.

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت ایوانِ کسریٰ میں شگاف پڑ گیا اور اس کے چودہ کنگورے زمین پر گر گئے، فارس کا وہ آتشکدہ جو گزشتہ ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا یکایک خاموش ہوگیا۔ ساوہ کی جھیل بیٹھ گئی، تمام بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ زرتشتی عالموں اور کسریٰ خاندان کے بادشاہ نے پریشان کن خواب دیکھے، شاہانِ دنیا کے تخت سلطنت سرنگوں ہوگئے، پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے باعث نور آسمان کی طرف بلند ہوا اور بہت وسیع حصے میں پھیل گیا۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ہیں:

لقد قرن اللہ بہ من لدن ان کان فطمنما اعظم ملک من الملئکة یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلا ونھار
”جس دن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا دودھ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ہمراہ کر دیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راہوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راہنمائی کرتا رہے۔“

بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ اس کارواں قریش کے ساتھ، جو تجارت کے لیے ملک شام کی جانب جا رہا تھا سفر پر روانہ ہوئے۔ جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پہنچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لیے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی۔ اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخرالزمان سے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیان اسے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں نظر آئیں تو اس نے آپ کو فوراً پہچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ کے نبی ہونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں اور مزید کہا:

ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ انہیں گزند پہنچائے بغیر نہ رہیں گے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہوسکے واپس مکہ لے جائیے۔

حضرت ابوطالب نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آگئے اور پوری طرح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔



ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، اور نہ ہی کبھی کسی کے حق میں بد دعا کی ۔بہت سے واقعات آپ کی زندگی سے وابستہ ہیں جہاں لوگوں نے آپ کو تکلیفیں پہنچائیں لیکن آ پ نے ہمیشہ ان لوگوں کو معاف کر دیا اور یہی تعلیم آپ نے اپنے اصحابؓ کو بھی دی۔پڑوسیوں کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ کہتی ہیںحضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: “جبریلِ ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ(پڑوسی)کا حق ادا کرنے کی ہدایت کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ میں نے یہ خیال قائم کر لیا کہ جبریلِ امین پڑوسی کو وارث قرار دیں گے”(یعنی ایک ہمسایہ کو دوسرے ہمسایہ کا وارث بنا دیں گے)(بخاری و مسلم)۔

اسی طرح لوگوں کی عزت احترام کے سلسلے میں فرمایا:” کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔آپنے فرمایا ہاں جب یہ کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے”(جامع ترمذی)۔

لوگوں سے ہمدردی کے تعلق سے اللہ کے رسول فرماتے ہیں :”جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتااللہ اس پر رحم نہیں کرتا”(جامع ترمذی)۔

حضرت رحمۃ للعالمین ﷺکےہم امتی ہیں. تمام امتوں سے افضل. شکرہے، اور حضرت آقا ﷺ کی سچی غلامی اور اتباع ہم سب اختیار کریں.

MUHAMMAD S.A.W.W
Hmary Bri Shaan Valay


اپنا تبصرہ بھیجیں