محمّد ﷺ کی نصیحت


اُم سلمٰؓی نے بیان کیا کے نبی کریمﷺ نے نصیحت فرمائی
کہ جب تم کسی مریض یا فوت ہونے والے کے پاس جاو تو اچھے کلمات کہا کرو
کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں
(صحیح مسلم)

ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے بیمار کی عیادت کی، آسمان سے ایک منادی پکارے گا: تو نے بہت اچھا کیا، تمہارا چلنا مبارک ہو، تو نے جنت میں اپنے لیے محل بنالیا، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔
اسلام دینِ فطرت ہے، اسلام انسانیت کی مسلَّمہ اقدار کو نہ صرف قائم رکھتا ہے، بلکہ انہیں اعلیٰ معیار عطا کرتا ہے، اسلام جرم سے نفرت سکھاتا ہے، لیکن مُجرم سے ہمدردی تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے، امام اہلسنت نے ایک موقع پر فرمایا: ’’سادات قابلِ احترام ہیں، اگر کسی سید زادے کو تنبیہ یا سرزنش کرنی پڑے تو یہ سمجھ کر کرے کہ میں اس کے لباس سے گَرد جھاڑ رہا ہوں‘‘، یعنی آپ نے لباس کو اعمال سے تشبیہ دی اور اصلاح کو بھی نفرت کے دائرے سے نکال کر ادب کے دائرے میں داخل فرمایا۔ مفسرینِ کرام نے النساء: 36 میں قرآنِ کریم میں اجنبی ہمسائے اور پہلو میں بیٹھے رفیق سے بھی حُسنِ سلوک کا حکم دیا، ظاہر ہے کہ اجنبی پڑوسی غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے، نیز پہلو میں بیٹھا شخص بھی ممکنہ طور پر غیر مسلم ہوسکتا ہے، سو اسلام نے کسی نہ کسی درجے میں ان کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے۔ انسانی اقدار کی سربلندی ہی کا شعار ہے کہ اسلام نے بیمار پُرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور بلندیِ درجات کا ذریعہ بتایا ہے اور غیر مسلم کی عیادت کی بھی اجازت دی ہے-
1 سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومن کو کوئی کانٹا چبھے یا اُس سے زیادہ تکلیف پہنچے، اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند اور اس کا گناہ معاف فرما دیتا ہے، (سنن ترمذی)-
2 سیدنا ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس مسلمان کو بیماری یا کسی اور سبب سے کوئی تکلیف پہنچے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو (اس کثرت سے) معاف فرما دیتا ہے جیسے (خزاں میں) پتے جھڑتے ہیں، (ترمذی)-
3 رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے میرے بندے! میں بیمار تھا، تو نے میری عیادت نہ کی، بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو رب العالمین ہے، اللہ فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہیں: میرا فلاں بندہ بیمار تھا، سو تونے اس کی عیادت نہ کی، تجھے معلوم ہے کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے قریب ہی پاتا، (صحیح مسلم)
4 انس بن مالک (طویل حدیث میں) بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا: جو بھی شخص کسی بیمار کی عیادت کرے گا تو وہ جنت کے بحرِ رحمت میں غوطے لگائے گا، پھر جب وہ مریض کے پاس بیٹھے گا تو رحمت اُسے ڈھانپ لے گی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ تو اُس تندرست کا انعام ہے جو مریض کے برابر میں بیٹھے تو مریض کی کیا شان ہوگی، آپ ؐ نے فرمایا: اس کے گناہ مٹ جائیں گے، (مسند احمد)
5 سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: ایک یہودی لڑکا بیمار پڑگیا تو نبی کریمؐ اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے، آپ ؐاس کے سرہانے بیٹھ گئے اوراس سے فرمایا: اسلام قبول کرلو، (اس کا باپ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا)، اس نے باپ کی طرف دیکھا تو باپ نے اس سے کہا: ابوالقاسم (ؐ) کے حکم کی تعمیل کرو، وہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ پس نبی ؐ یہ فرماتے ہوئے وہاں سے باہر تشریف لائے: تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس لڑکے کو آگ سے نجات دی ہے، (بخاری)-

MUHAMMAD SAW KI NASEEHAT


اپنا تبصرہ بھیجیں