ہر کسی سے ملتا ہوں، فاصلے بھی رکھتا ہوں


رابطے بھی رکھتا ہوں، راستے بھی رکھتا ہوں
ہر کسی سے ملتا ہوں، فاصلے بھی رکھتا ہوں

غم کہاں مناتا ہوں ، چھوڑ جانے والوں کا
توڑ کر تعلق میں ، در کھلے بھی رکھتا ہوں

موسموں کی گردش سے ، میں نکل تو آیا ہوں
یاد پر خزاوں کے حادثے بھی رکھتا ہوں

وقت کے مطابق اب، خود کو ہے اگر بدلا
وقت کو بدلنے کے، حوصلے بھی رکھتا ہوں

بھر کے ایک دن گھاو سارے بھول جاتے ہیں
زخم سو پرانے کچھ، ان سلے بھی رکھتا ہوں

گو کسی بھی منزل کی اب نہیں طلب مجھ کو
ہر گھڑی میں پیروں میں ، آبلے بھی رکھتا ہوں

مانتا ہوں ابرک میں ، بات یار لوگوں کی
سوچ کے مگر اپنے ، زاویے بھی رکھتا ہوں

اتباف ابرک

SOCH K MAGAR APNE, ZAWIYE BHI RAKHTA HON


اپنا تبصرہ بھیجیں