دین اسلام چونکہ کامل ومکمل نظام حیات ہے اس لئے اس دین میں حصول رزق کے بارے میں بھی انسانیت کے لئے رہنمائی ہے ۔دین اسلام کے دئیے ہوئے اصول وضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہوگا وہ حلال شمار ہوگا ۔اسلام نے اپنے پیروئوں کو رزق حلال کمانے کی ترغیب دی ہے اور حرام رزق سے بچنے کی ترغیب بھی دی اور ترہیب بھی کی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا
“جو کچھ حلال رزق اللہ نے تُم کو دیا ہے اُسے کھاؤ پیو اور اُس اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو،، (المائدہ: 88)
دین معاملات کا نام ہے یعنی اسلام کا مطلب حلال اور حرام کی پہچان اور اعمال کی بنیاد اس پر رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حج، روزہ اور زکوٰۃ جیسے احکام اللہ کے ہاں بڑی عظیم عبادات ہیں ان کے بہت سے فضائل ہیں، کوئی بھی شخص ان کے مرتبے سے انکار نہیں کرسکتالیکن انسان کے اپنے کھانے پینے، لباس پوشاک، فرد اور دوسرے لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور حق کی خاطر اپنی عمر گزارنا بھی اس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ مطلب یہ ہے آدمی اپنی زندگی حلال اور حرام کے بارے میں انتہائی خیال رکھتے ہوئے گزارے کیونکہ اسلام میں یہ ایسا بنیادی حکم ہے جس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ۔ اس لئے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ : زندگی میں اس حکم کو نافد کرنا انفرادی عبادت سے زیادہ مشکل ہے ۔ اس لئے جو شخص اسلام کی نمائندگی کرتا ہے اور اس پر سچ مچ عمل بھی کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ حلال رزق کو تلاش کرے اور اس کا خیال رکھے، حرام کو ترک کرنے پر صبر کرے اور اس پر قائم رہے اور دیکھے کہ اس کے پیٹ میں حرام نہ آجائے خواہ وہ ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو۔
بخاری میں حضرت مقدام بن سعد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا :
’’اُس کھانے سے بہترکوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا اور بے شک اللہ کے نبی دائود(علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔ ‘‘
اُم المومنین سیدہ طیبہ اماں عائشہ الصدیقہ سلام اللہ علیہا روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’جو تم کھاتے ہو اُن میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوااور تمہاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہےـ‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)۔
یعنی اولاد کی کمائی بھی انسان کے لئے مالِ حلال میں شمار ہوگی ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؒ فرماتے ہیں کہ’’ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سُنا ہے کہ کوئی شخص کپڑا خریدے جس کی قیمت میں ایک تھورا سا حصہ حرام آمدنی کا بھی ہو تو اس وقت تک اس کی نماز قبول نہیں ہو گی جب تک وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا‘‘ ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’ جس بدن نے حرام مال سے پرورش پائی ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘۔ایک اور ارشاد نبویﷺ ہے ’’ بدن کا گوشت جو حرام سے پیدا ہو،ا س کا آگ میں جلنا بہتر ہے‘‘ جبکہ حلال کمائی نیک کاموں کے لیے مددگارثابت ہوتی ہے۔ برائیوں سے نفرت پیدا کرتی ہے۔االلہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔ حلال روزی سے حکمت و دانش مندی حاصل ہوتی ہے۔ کسبِ حلال سے دلی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔حلال کمانے والے کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ رزقِ حلال سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اس لیے ہمیں چائیے کہ ہم خود بھی رزق حلال کمائیں اور کھائیں نیز دوسروں کو بھی حلال کمانے اور حلال کھانے کی تلقین کریں تاکہ ہم اللہ کے عذاب سے بچ سکیں اور حلال رزق کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔