مذاق ضرور کیجئے
مگر اتنا دھیان رکھنا چاہیے کہ
مذاق کرنے اور مذاق اڑانے کا فرق آپ کو معلوم ہو
کسی کامذاق اڑانااور اُس پر ہنسنابہت آسان ہے۔ ہمیں کیا حق ہے کہ ہم کسی کا مذاق اڑائیں اُسے ایسی بات کہیں جس سے وہ اپنی بے عزتی یا کسی قسم کی شرمندگی محسوس کرے۔ کسی کا مذاق اڑانے سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانک کر کیوں نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا ہیں، ہماری اپنی حیثیت کیا ہے۔ ہم کسی کا مذاق کیسے بناتے ہیں یا ایسے کون سے الفاظ استعمال کرتے ہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ۔ (الحجرات 49:11)
اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی خواتین، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کیا کرو۔ ایمان لانے کے بعد فاسقانہ نام بہت ہی بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے توبہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔
ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔اس کے نتیجے میں باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سواری طلب کی تو آپ نے (مذاق میں) اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹنی کا بچہ دونگا۔ اس شخص نے کہا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کرونگا۔ آپ نے فرمایاکہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔(ترمذی حدیث صحیح غریب :۲۰۵۶ )
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا(ہاں لیکن ) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔(ترمذی حدیث۲۰۵۶)
یعنی مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیر اخلاقی بات کرنا جائز نہیں اور جو بات ہو وہ حق ہو۔مذاق ٕضرورکریں مگر اتنا دھیان رکھنا چاہیے کہ مذاق کرنے اور مذاق اڑانے کا فرق آپ کو معلوم ہو۔