علم انسان کی تیسری آنکھ ہے


علم انسان کی تیسری آنکھ ہے

تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے جو مسلمان مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ انسان کو سچائی کی پہچان‘ حقائق کا ادراک اور معاشرے میں مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا راز بھی علم ہی ہے۔قران مجید نے حضرت آدم ؑ کے دنیا میں بھیجے جانے کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ

’ وعلم آدم الأسماء کلھا ‘
(ہم نے آدم کو تمام چیزوں کا علم دیا)

فرشتے اس علم سے ناواقف تھے۔ یہی علم انسان کے اندر ’جوہر انسانیت‘ پروان چڑھانے کا ذریعہ بھی ہے۔مشہور فرانسیسی مفکر روسیو کہتا ہے کہ
’’جس طرح درختوں کا ارتقاء کاشت کاری کے ذریعے ہوتا ہے ‘ اسی طرح انسانوں کا ارتقاء تعلیم کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔

عصر حاضر میں علم کی فراہمی کے لئے اسکول و کالجز کی شکل میں ایک باقاعدہ تعلیمی نظام قائم ہے۔ ہمارے صوبے میں تعلیم کا معیار دوسرے صوبوں کی نسبت کم ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کو ڈگری تک محدود کر دیا گیا ہے کہ پڑھو یا نہ پڑھو لیکن ڈگری ضرور حاصل کرو۔ اگر یہ کہا جائے کہ سائنس کا آنا بھی کسی ڈگری کا محتاج ہے تو یہ بالکل غلط ہے کیوں کہ سائنس تو انسان کی اس پیاس کا نام ہے جو مشاہدات کے جام سے بجھتی ہے۔ وہ بھوک ہے جسے تجربات کے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کے دور میں ترقی کے لیے سائنس پر عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار سائنس کی نئی ایجادات پر ہوتا ہے۔ سائنس حقیقت میں علم کی تلاش ہے؛ کسی چیز کے بارے میں پرکھنا، جاننا، تلاشنا۔

صرف تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے زندگی کی جنگ لڑی اور جیتی جاسکتی ہے۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر نوجوانوں کے لیے تعلیم کی فراہمی کی کوشش کرنی چاہیے۔

قرآن کا پہلا لفظ جو غارِ حرا کے سناٹو ں میں گونجا۔ وہ ’’اقرا‘‘ تھا یعنی ’’پڑھ‘‘۔ خالقِ کائنات کا پہلا حکم اورختمی المرتبتﷺ نے ہر مسلمان مرد وعورت پرحصول علم فرض قرار دیا۔ ہمارا طبقاتی معاشرہ اس کے کئی اسباب میں سے ایک ہے۔

معاشرہ مختلف طبقوں میں بٹا ہوا ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ موٹر گاڑی ایک طبقے کے لیے خواب، کسی کے لیے لگژری کسی کی ضرورت اور کوئی گاڑی اس طرح بدلتا ہے جیسے لباس اس طرح تعلیم میں بھی ہر طبقے کے لیے مختلف ہوجاتی ہے ۔ایک طبقے کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنا ممکن نہیں ہوتا اگر چہ تعلیم مفت ہی کیوں نہ ہواور بچوں کو کمانے کے لیے نکلنا ہوتا ہے۔ ایک طبقہ بچوں کواسکول بھیج تو دیتا ہے لیکن اس سے آگے کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک طبقہ تعلیم کے لیے کچھ کرسکتا ہے لیکن بڑی مشکلوں سے چوں کہ آئے دن کی مہنگائی اور بے روزگاری سے اس کی کمر ٹوٹتی جاتی ہے پھر ایک طبقہ وہ بھی ہے، جن کے بچوں کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

پہلا اسکول غیر منقسم ہندوستان میں غازی پور میں سر سید نے قائم کیا اور وہی سلسلہ علی گڑھ اور علی گڑھ تحریک تک پہنچا۔ اپنے ایک مضمون میں سر سید لکھتے ہیں: ’’دنیا کا ہر آدمی نا تراشیدہ ہیرے کی مانند ہوتا ہے۔ تعلیم وہ اوزار ہے جس سے اس پتھر کو تراش کر جگمگاتے اور قیمتی ہیرے میں بدل کر انسان بنادیا جاتا ہے ’’ مطلب پڑھا لکھا انسان۔‘‘ قائد اعظم نے کیا خوب صورت بات کہی تھی کہ’’علی گڑھ ایک چھوٹا پاکستان ہے ہم پاکستان کو ایک بڑا علی گڑھ بنائیں گے۔‘‘

علم انسان کی تیسری آنکھ ہے

تعلیمی نظام میں پرائمری تعلیم کو بجا طور پر ’ بنیاد کا پتھر‘ سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ پتھر بہت ہی کمزور ہوچکا ہے۔ پرائمری تعلیم سے نکلنے والی ایک کثیر تعداد بنیادی صلاحیتوں ’تحریر‘ اور ’خواندگی‘ تک سے نا بلد ہے۔ حتیٰ کہ دسویں کلاس تک پہنچنے والی ایک تعداد ایسی بھی ہوتی ہے جو اپنا نام تک بھی لکھنا نہیں جانتی۔ اس کی ذمہ دار صرف پرائمری تعلیم ہے۔ ہر کلاس میں ذہین ‘ اوسط اور کمزور ہر قسم کے طلبہ پائے جاتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کلاس میں بالعموم ۵۰ فیصد سے زائد بچے کمزور ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریس اوسط اور ذہین بچوں کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں۔کمزور بچے اس میں سے کچھ اخذ نہیں کرپاتے۔ وہ صرف جسمانی طور پر کلاس میں حاضر رہ کر ’خیالات کی دنیا‘ میں گم ہوتے ہیں۔لہذا اساتذہ کو ایک جانب اپنی تدریس کی سطح مزید کم کرنی چاہئے اور کلاس کے کمزور بچوں کو بنیاد بناکر پڑھانا چاہئے۔ لیکن اس میں ذہین اور اوسط بچوں کا وقت ضائع ہونے اور نصاب کی تکمیل کے طول پکڑنے کا امکان ہے۔ لہذا اس کی Idealشکل یہ ہو سکتی ہے کہ ان کمزور بچوں کے لئے خصوصی کوچنگ لی جائے اور ان کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔ اس کے لئے اساتذہ کوخصوصی محنت کی ضرورت ہے۔ محض ’قانونی‘ تقاضے پورے کرنے والے اساتذہ سے اس ’بڑے‘ کام کی امید نہیں کی جاسکتی۔

تعلیمی عمل وہ ’مثلث‘ ہے جس میں طالب علم اور اساتذہ کے ساتھ والدین بھی شامل ہیں۔تعلیم طالب علم کی ہمہ جہت شخصیت سازی کا نام ہے۔ مہاتما گاندھی کے مطابق’ تعلیم فرد کے جسم‘ ذہن اور روح کی ہمہ جہت تربیت کا نام ہے۔‘ ارسطوو افلاطون سے لے کر سرسید و ذاکر حسین تک سبھی ماہرین تعلیم (الفاظ کے پھیر بدل کے ساتھ) اسی تصور تعلیم کو مانتے ہیں۔ اس کے لئے مضبوط قوت ارادی اور حد درجہ قوت عمل کی ضرورت ہے،

سچ کہا شاعر مشرق نے ؂
تعلیم ہے فقط امراض ملت کی دوا

Ilm Insan Ki Teesri Aankh Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں