جب آنکھوں سے سجدے بہنے لگیں
تو قبولیت کے سمندر میں ضرور ہلچل ہوتی ہے
قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
ترجمہ: ’’اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ پکارے‘ قبول کرتا ہوں‘ اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیں اور مجھ پر ایمان رکھیں‘ یہی انکی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ: 186)
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ.(مسلم، رقم 1083)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سجدہ کرتے ہوئے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس سجدوں میں کثرت سے دعا کیا کرو۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَّقُوْلَ فِيْ رُكُوْعِهِ وَسُجُوْدِهِ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ.(ابو داؤد، رقم 877)
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدہ میں کثرت سے’سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي‘پڑھتے تھے۔
اللہ نے فرمایا ہے ’’صبر اور صلوٰۃ کے ذریعے مانگو‘‘
اللہ پاک ہماری دنیا و آخرت دونوں بہتر بنانا چاہتا ہے۔ وہ کوئی دعا قبول کرتا ہے‘ تب بھی اس کا احسان ہے‘ نہیں کرتا تو اس میں کوئی ہمارا ہی فائدہ پنہاں ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے تاخیر میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ جو انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ وہ ہمیں کچھ سکھانا چاہتا ہے کہ ’’اگر بندہ میری بات مان لے‘ مجھ پر ایمان رکھے‘یہی اس کی بھلائی کا باعث ہے۔ شاید ہم اللہ کی بجائے غیر اللہ کی اطاعت میں گمراہ ہو جاتے ہیں اور اپنی بھلائی نہیں چاہتے‘ اس کا فیصلہ بالآخر بندے نے خود ہی کرنا ہے۔