رشتے اور عبادت میں نیت صاف رکھیئے
نیت صاف ہو جائے تو نصیب بھی بدلنے لگتا ہے
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے۔ صالح عمل وہی ہوتا ہے اور اسی عمل کی اللہ کے ہاں قدر و قیمت ہوتی ہے جو صالح نیت سے کیا گیا ہو، نیت صاف ہونے کا عمل دخل زندگی کے ہر شعبے میں ہونا چاہیے لیکن “رشتے اور عبادت میں نیت لازمی صاف رکھیئے”
نیت صاف نہ ہو تو رشتہ اور عبادت دونوں بے کار ہوتے ہیں. رشتوں میں مخلصی نہ ہونے کی وجہ سے منافقت جنم لیتی ہے جسکی اسلام میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ اورعبادت صرف اللہ کی ہوتی ہے اگر اس میں کوئی دکھاوا آجائے تو بے مقصد ٹھہرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جب اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے تو برے اعمال بھی اگر اچھی نیت سے کیے جائیں تو اس کا اجر بھی صالح اعمال جتنا ہی ملتا ہے، یہ سراسر غلط سوچ ہے کیونکہ جن اعمال سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے ان میں حسن نیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا کسی بھی عمل کیلئے نیت کا صاف ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ جو شخص کسی کا برا چاہتا ہے وہ ایک نہ ایک دن اپنے اسی کھودے ہوئے گڑھے میں ضرور گرتا ہے۔
صرف ایک چھوٹے لفظ نیت میں زندگی کے پوشیدہ پہلوؤں کے اَن گنت راز چھپے ہیں۔ بس اُن کو صرف کھوجنے کی ضرورت ہے۔ نیت کرنے میں برکت بہت ہی ہوتی ہے جب انسان کا دِل صاف ہو اس میں کوئی کدورت نہ ہو۔ اگر بُرا کام نیت کے ساتھ کیا جائے تو اس میں کامیابی ہو گی؟ چلو بالفرض وقتی طور پر یہ مان بھی لیا جائے کہ کامیابی مل گئی، مگر اس میں نہ تو برکت کا پہلو ہو گا اور نہ ہی اس کا کوئی اجر و ثواب ہو گا یا اس کے لئے یوں مثال دی جا سکتی ہے کہ سرکہ میں پیدا ہونے والا کیڑا سرکہ سے باہر والا کیڑا سرکہ میں فوراً مر جاتا ہے جو چیز جس مقصد کے لئے ہے اس کے علاوہ میں اس کا استعمال یا اس کی کوشش بے حد بے کار اور بے مقصد ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جو چیز جس مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے اُس کے لئے اس میں آسانی رکھی گئی ہے‘‘۔
نیت کا تعلق، دل کے ساتھ ہے، دل کے ارادے کوہی نیت کہا جاتا ہے اور اسی پر تمام عملوں کا دارومدار ہے زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔