لمحہ فکریہ


لمحہ فکریہ

اس وقت قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی
آج اس ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے

ایک قوم کی ضرورت ہے

دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی اور خود کو منوایا، ان میں سے مسلمان قوم ایک منفرد اور نمایاں مقام رکھتی ہے۔تاریخ کے اوراق الٹتے چلے جائیں آپ پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ قوم کس بلا کا نام ہے؟

آخر وہ کون سے عناصرترکیبی تھے جو اس قوم میں سماگئے تھے؟ وہ کونسی خوبیاں تھیں جن کی بدولت قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم ان عناصر سے محروم کیوں ہے؟ ذیل میں ان عوامل کا جائزہ لیا جائے گا۔

اتحاد امت
واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ “ملتیں پائیدار رفاقتوں سے بنتی ہیں اور رفاقتیں میسر نہ ہوں تو عناصرترتیبی میں ظہور نہیں ہو سکتا۔اینٹ کا اینٹ سے رابطہ ختم ہو جائے تو دیواریں اپنے بوجھ سے گرنا شروع ہوجاتی ہیں۔” واصف علی واصف ؒ کے یہ الفاظ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔بلاشبہ اتحاد امت وہ کڑی تھی جو مسلمانوں کو پروئے ہوئے تھی۔ جب وہ لڑی ٹوٹی تو مسلمان ریزہ ریزہ ہو گئے، ان کی ہوا اکھڑ گئی۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمان کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہےیعنی دنیا میں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے مگر ان کی حیثیت تنکوں کی سی ہے۔نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ تم پر عنقریب قومیں ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔تو صحابہ اکرام نے پوچھا کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ اس وقت تم بہت ہوگے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہو گے،اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا۔ اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔صحابہ نے پوچھا وہن کس کو کہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے خوف۔

مسلمان اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ ان کے ہاں قومیت کا تصور مختلف ہے۔مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ایک قوم ہیں۔بغیر کسی جغرافیائی،نسلی حد بندیوں کے۔ اسلام ایک وطن کا نام ہے جو ہر نسل کے انسانوں کو ایک کلمے کی بنیاد پر اپنے اندر سمو لیتا ہے۔بقول اقبالؒ

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اقبال مسلمانوں کو ایک ملت میں گم ہوجانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مسلمانوں کا خدا ایک قرآن ایک، رسولﷺ ایک، کعبہ ایک اور دین ایک ہے۔ وہ فرقوں اور گروہوں میں کیوں تقسیم ہوگئے۔

اتحاد امت کے بغیر مسلمان کبھی اپنی دھاک نہیں بٹھا سکتے۔ یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، جس کو کبھی نیشنلزم تو کبھی جمہوریت کے نام پر اکٹھا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔یہ سب بے سود ہے۔مسلمان محکوم رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے، ان کا کام کچھ اور تھا۔ انہوں نے دنیا کو لیڈ کرنا تھا۔محمد عربیﷺ کے کلچر پر سب کو لے کے آنا تھا۔یہ سب اتحاد امت کے بغیر ممکن نہیں۔

خود انحصاری
خود انحصاری کے بل بوتے پر قوموں کا وجود پنپتا بھی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔جو قومیں اپنے وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتی ہیں، دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔اور جو قومیں کاسہ گدائی لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتی ہیں، وہ ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہتریں فوج رکھتے ہوئے بھی رسوا ہوتی ہیں۔نبی کریمﷺ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں فقرو فاقہ کو برداشت کیا،پتھر پیٹ پر باندھے مگر خودداری پر حرف نہ آنے دیا۔ دنیا نے دیکھا یہ فاقہ زدہ لوگ جو یقین عزم اور قوت ایمانی کے سہارے چاردانگ عالم میں پھیل گئے۔ یہ سچ ہے کہ جن قوموں کے اندر فقرو فاقہ کو برداشت کرنے کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے تو انقلابات زمانہ ان کے قدم چومتا ہے۔ فی زمانہ پاکستانی قوم اس وصف سے محروم ہو چکی ہے۔غربت اور بھوک کے خوف سے اپنی ہمت اور یقین کے بل بوتے پر نکلنا ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے ہمارے ہر پیدا ہونے والا بچہ مقروض ہے۔ہماری معیشت سود پر چل رہی ہے۔ایسے میں خودی کا وصف کیسے پیدا ہوگا؟

دین سے وابستگی
اسلام ہی تھا جس نے مسلمانوں کو ذلت کے اندھیروں سے نکالا تھا۔ اسلام میں ہی جائے پناہ ہے۔اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھا جائے گا اتنی جلدی مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔سیکولرازم خسارہ ہے دنیا و آخرت کا۔ اس امت کو سمجھنا چاہیے کہ اس امت کا خلاء نہ لینن کے افکار پورا کر سکتے ہیں اور نہ ہی وائٹ ہاؤس کی امداد۔ یہ خلاء صرف اسلام کے عقیدے،قانون سے پورا ہو سکتا ہے۔واصف علی واصف کے بقول ہمارے ملک میں اس شخص پر سکون قلب حرام ہے جس کو اسلام اور پاکستان سے محبت نہ ہو۔مزید فرماتے ہیں مذہب کی تعلیم واردات نہیں بنتی بلکہ عمل واردات بنتا ہے۔ہمیں نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہوگا، ان کی زندگی سے رہنمائی لینا ہوگی۔علامہ اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے۔ انہیں اس روحانی جمہوریت کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچاناچاہیے جو اسلام کی غایت اولیٰ ہے۔

قوت عمل
کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی قوت عمل کی طاقت سلب کر لی جاتی ہے۔عمل سے ہی انسان کی زندگی جنت اور جہنم بنتی ہے۔عمل وہ بنیاد ہے جس پر قومیں عروج پر پہنچتی ہیں۔قوت عمل سے سرشار قومیں کبھی زمانے کی کج رویوں کا شکار نہیں ہوتیں۔کامیابی ان کے ہمیشہ قدم چومتی ہیں۔پاکستانی قوم کو ازسرنو قوم بننے کے لیے قوت عمل کی بہت ضرورت ہے۔

ایمان، اتحاد، یقین محکم اور عمل پیہم، یہ وہ کنجیاں ہیں جو قوموں کو قوم بننے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔قوموں کا عروج و زوال طے کرتا ہے کہ کوئی قوم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہے۔اللہ سے دعا ہے وہ ہمیں یقین اور عمل کی قوت عطا کرے۔اور پھر سے ایک قوم بنا دے۔ ہم بھیڑوں کا وہ ریوڑ ہے جنہیں کوئی جیسے ہانکنا چاہتا،ہانک رہا ہے۔اندھی تقلید اور فکری جمود نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ فرقہ واریت نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے تجھے تیری قدرت کا واسطہ تو ہمیں پھر سے ذلت کے اندھیروں سے نکال کر عزت کی زندگی عطا فرما۔ آمین!

مصنفہ کے بارے میں
روبینہ شاہین کا تعلق لاہور سے ہے۔ اسلامک اسٹڈیز میں ایم فِل کیا ہے۔ فکشن کم اور نان-فکشن زیادہ لکھتی ہیں۔ پھول، کتابیں، سادہ مزاج اور سادہ لوگوں کو پسند کرتی ہیں اور علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہیں۔

Us Waqt Qoam Ko Aik Mulk Ki Zroort Thi
Aaj Is Mulk Ko Aik Qoam Ki Zroorat Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں