اصلاح اور نکتہ چینی


سب سے مشکل کام اپنی اصلاح ہے
اور سب سے آسان دوسروں پر نکتہ چینی

معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے معاشرہ کسی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم سے ہر فرد اپنی اپنی اصلاح پر توجہ دے اور دوسروں کی خامیوں کو نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھے تو ایک کامیاب معاشرہ وجود میں آتا ہے جس کی قوت اور درستی پر قوم کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قومی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔

معاشرے کا کردار بننے یا بگڑنے کا عمل فی الفور مکمل نہیں ہو جاتا، بلکہ اس میں طویل مدت صرف ہوتی ہے۔ بگاڑ کی راہ پر چلنے والے معاشرہ میں اچھی اقدار ایک ایک کرکے منہدم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ نیک و بد کے بارے میں شدید احساس رکھنے والے لوگ تو اس خرابی کو جلد بھانپ جاتے ہیں، لیکن عام لوگوں پر یہ مدتوں کے بعد کھلتی ہے۔

سب سے مشکل کام اپنی اصلاح ہے

ہمارا پسندیدہ مشغلہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہم خود کوئی عملی اقدام نہیں کرتے۔ دوسروں کے حق میں ہم بہترین جج اور اپنے حق میں ہم بہترین وکیل ہیں۔ دوسروں پر ہم جھٹ سے کفر، شرپسند یا فسادی ہونے کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور اپنی ہر چھوٹی بڑی غلطی کی ہزاروں تاویلیں، دلائل پیش کرکے اپنا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے واحد کام جو ہم کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیحت ہے۔ ہم ہر اچھے کام کی دوسروں کو نصیحت کرکے سمجھتے ہیں ہمارا فرض پورا ہوگیا۔ اسی نصیحت پر خود عمل پیرا ہونا بھول جاتے ہیں۔ عمل قول سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے معاشرے کی اصلاح ہماری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔

اصلاح آپ کے قول سے نہیں آپ کے عمل سے ہوگی لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کیا کہ رہے ہیں لوگوں کی توجہ اس بات پر زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔سب سے پہلے خود میں بہتری لانے کی کوشش کیجیے۔ جب تک آپ خود بہتر نہیں ہوں گے آپ دوسروں کو بھی بہتر نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص صرف اپنی ذات کو بہتر بنانے میں لگ جائے تو ہمارا سارا معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ‘‘۔ پہلے خود کو بچانے کا حکم دیا گیا اس کے بعد دوسروں کو بچانے کہا گیا۔ جو برائی آپ کو دوسروں میں نظر آئے غور کیجیے کہیں وہ آپ میں بھی موجود تو نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ ہے تو پہلے اسے دور کیجیے۔

ہم میں سے ہر شخص کو اللہ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے کسی کے پاس کم ہے کسی کے پاس زیادہ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس صلاحیت کو کس طرح بروئے کار لاسکتے ہیں۔ کس حد تک ہم اس کا مثبت یا منفی استعمال کرسکتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمیں اسی سمجھداری، بردباری، دانشمندی سے کام لینا ہوگا ۔

Sab Say Mushkil Kaam Apni Islaah Hay
Aur Sab Say Asaan Doosron Per Nuqta Cheeni


اپنا تبصرہ بھیجیں