یاد رکھو نماز پانچ وقت اور
اخلاق چوبیس گھنٹے فرض ہے
اخلاق کی اہمیت وفضیلت ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات عالیہ میں بڑے دل نشیں اور مؤثر اسلوب میں اخلاق حسنہ کو اپنانے کی تلقین کی ہے چند احادیث ملاحظہ ہوں۔۔۔
اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا
کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔۔۔(ابوداؤد ٤٦٨٦، ترمذی ١١٦٢)۔۔۔
ان المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجہ الصائم القائم۔
مومن اپنے حسن اخلاق سے دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کا درجہ پالیتا ہے۔(ابوداؤد ٤٧٩٨)۔۔۔
دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
مامن شئی یوضع فی المیزان اتقل من حسن الخلق وان صاحب حسن الخلق لیبلغ بہ درجہ صاحب الصوم والصلوہ۔
(روز قیامت) میزان میں حُسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی، بااخلاق شخص جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ۔۔۔
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔۔۔
مامن شئی اتقل فی المیزان منحسن الخلق۔۔۔
احسن خلق سے زیادہ باوزن ترازو میں کوئی چیز نہ ہوگی۔۔۔
اچھے اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب اور مقرب بننے کا بہترین ذریعہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
ان من احبکم الی احسنکم اخلاقا۔۔۔
میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہترین ہوں ( بخاری ٣٧٥٩)۔۔۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کے حامل شخص کی ان الفاظ میں تعریف وتحسین کی ہے۔۔۔
ان من خیارکم احسنکم اخلاقا۔
تم میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں (بخاری ٣٥٥٩)۔۔۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں حسن اخلاق کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔۔۔ وہیں معاملات کو بخوبی انجام دینے پر زور دیا، اچھی صفات سے متصف ہونے کی تاکید کی ہے اور بدخلقی کی مذمت کی ہے اس کے بھیانک اور مہلک نتائج سے خبردار کیا ہے اور بدخلق شخص سے اپنی بیزاری اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اس موضوع کی چند احادیث ملاحظہ ہوں۔۔۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔
ابغض الرجال الی اللہ الالد الخصم۔
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبضوض شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا اور جھگڑالو ہو (ترمذی٢٩٧٦)۔۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
المؤمن غیرکریم والفاجر خب لئیم۔
مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر چالاک اور کمینہ ہوتا ہے(ترمذی ١٩٦٤ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)۔۔۔
ایک اور روایت میں ہے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
ان اللہ لیبغض الفاحش البذیء
اللہ تعالٰی بےحیا اور فحش گو شخص سے نفرت کرتا ہے (ترمذی ٢٠٠٢ صحیحہ الالبانی)۔۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
البذاء من الجفاء والضفاء فی النار۔
فحش گوئی (اللہ سے) بدعہدی ہے اور بدعہدی جہنم میں (لےجانے والی) ہے (ترمذی ٢٠٠٩صحیحہ البانی)۔۔۔
اسی طرح معاشراتی زندگی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور مقام ومرتبہ اس حیثیت سے بھی بہت بلند اور ممتاز ہے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ اور پہلو مزین، روشن اور تابناک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو قول تھا وہی عمل بھی تھا۔۔۔ آپ کی عملی زندگی کے واقعات کے لئے تو تفصیل درکار ہے چند واقعات پیش کرتا ہوں۔۔۔
کفار مکہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر ظلم وستم کا کوئی حربہ ایسا نہ تھا جسے نہ آزمایا ہو یہاں تک کے وہ اپنے گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے جب مکہ فتح ہوا تو اسلام کے یہ بدترین دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے وہ مکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم وکرم پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے منتظر تھے آپ نے پوچھا۔۔۔
تمہیں معلوم ہے کے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟؟؟۔۔۔ انہوں نے جواب دیا آپ ہمارے شریف بھائی اور شریف برادر زادے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو (سیرہ النبی لابن ہشام الجزء ٤ صفحہ ٣٢)۔۔۔
اس بےمثل عفو عام کا نتیجہ یہ ہوا کے تمام اہل مکہ حلقہ بگوش مسلمان ہوگئے اور ایک سال کا عرصہ بھی نہ گذرنے پایا تھا کے پورا مکہ اسلام میں داخل ہوگیا تھا۔۔۔
بیان کی گئی تفصیل سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کے اسلام میں حسن اخلاق کو کتنی اہمیت دی گئی ہے اور اللہ کے رسول کا اسوہ اس معاملے میں کیا رہنمائی کرتا ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کے اُمت مسلمہ کا رویہ اسلامی تعلیمات اور اسوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا ان کی اکثریت اخلاق وکردار سے عاری ہے معاملے کی صفائی اور شفافیت، دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اعلٰی اخلاق وکردار کا مظاہرہ اور دیگر اخلاق جو کبھی ان کی پہچان ہوا کرتے تھے اب ختم ہوچکے ہیں اور تمام اخلاقی برائیاں جو دیگر اقوام میں پائی جاتی ہیں وہ اُن میں درآئی ہیں جب تک وہ اپنے اخلاق و کردار کو نہیں سنواریں گے اور ان کی زندگیاں اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ نہیں پیش کریں گی اس وقت تک اشاعت اسلام کی راہ کی روکاوٹ دور نہیں ہوگی۔۔۔
واللہ اعلم بالغیب۔۔۔