ننانوے فیصد ناکامیاں ان لوگوں کے حصے میں آتی ہیں
جنہیں عزر پیش کرنے کی عادت ہوتی ہے
جارج واشنگٹن کارور کا کہنا ہے کہ “ننانوے فیصد ناکامیاں ان لوگوں کے حصے میں آتی ہیں جنہیں عزر پیش کرنے کی عادت ہوتی ہے” – یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ہماری ہر کامیابی کے پیچھے ناکامیوں کے انبار ہوتے ہیں ایک مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کامیاب لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے وہ نہ بہانے تراشتے ہیں اور نہ ہی دوسروں پر الزام دینے کی بجائے اپنی کوشش پر بھروسہ کرتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں اور اپنی ناکامیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں بلکہ کہ سکتے ہیں کہ ہر ناکامی میں ہماری کامیابی کا بیج پوشیدہ ہوتا ہے ناکامیں سے گزرنے کے بعد ہی آپکے ہاتھ میں ایسے گُر آتے ہیں جن سے آپ کامیا بی حاصل کر پاتے ہیں۔
کامیاب ہونے کے لیے انسان کو ایک جرات مندانہ سوچ اپنانی پڑتی ہے اگر ہم کامیاب ہونا چاہتےہیں تو اپنی صلاحیتوں کا مکمل طور پہ اظہار کرنا ہوگا اپنے حسے کی ناکامیوں سے گزرنا ہو گا لیکن کسی بھی ناکامی کو حتمی نہیں سمجھنا چاہیے اور ناکامی کو قبول کرنے اور اس کے اژالہ سے بچنے کے لیے کوشش کو اپنا اشعار بنائیں توکچھ بعید نہیں کہ لوگ آپکی مثال دیں اور آپکا شمار کامیاب لوگوں میں گا۔
عظیم ناول نگار پاولو کویلہو کا کہنا ہے کہ صرف ایک چیز ایسی ہے جو خواب کے حصول کو ناممکن بناتی ہے اور وہ ہے ناکامی کا خوف۔ ناکامی کے خوف میں مبتلا لوگ زندگی میں اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے بہت نیچے رکھتے ہیں، وہ ہر صورت میں ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لئے انہیں اپنے ہر خواب سے دستبردار ہونا پڑے۔
بعض اوقات کئی دفعہ انکار سننے کے بعد ایک ’’ہاں‘‘ ایسی مل جاتی ہے جو آپ کے لیے ترقی کا راستہ آسان بنا دیتی ہے۔ بچے چلنا کیسے سیکھتے ہیں؟ وہ غلطیاں کرنے اور بار بار کوشش کرنے سے سیکھتے ہیں۔ وہ چیزوں کو پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں، چلنے کی کوشش کرتے ہیں، نیچے گرتے ہیں لیکن گرنے کے بعد دوبارہ کوشش شروع کر دیتے ہیں، وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتے اور بالآخر چلنے لگتے ہیں۔
سچے دل سے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ کامیابی بھی ناکامی کی طرح زندگی کا ایک نا گزیر حصہ ہے لہذا اسکو اپنی زندگی کا کُل سمجھنے کی بجائے جُز سمجھا جائے۔