ذرا تُم دام تو بدلو یہاں ایمان بِکتے ہیں


یہاں تہذیب بِکتی ہے، یہاں فرمان بِکتے ہیں
ذرا تُم دام تو بدلو، یہاں ایمان بِکتے ہیں

ایمان بِکتے ہیں

ہم قرآن مجید کے سورہ حجرات میں پڑھتے ہیں:
قَالَتِ الْاٴَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا اٴَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ(1)
”یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے“

یعنی ”اسلام“ اور ”ایمان“ کا فرق یہ ہے کہ اسلام ظاہری قانون کا نام ہے اور جس نے کلمہ شہادت زبان پر جاری کرلیا وہ مسلمانوں کے دائرہ میں داخل ہوگیا، اور اسلامی احکامات اس پر نافذ ہوں گے۔ لیکن ایمان ایک واقعی اور باطنی امر ہے، جس کا مقام انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور اس کا ظاہری چہرہ۔

یہ وہی چیز ہے جس کے لئے پیغمبر اکرم ﷺ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے: ”الإسْلَامُ عَلَانِیَةَ ،وَالإیْمَانُ فِی الْقَلْبِ“(2) ”اسلام ایک ظاہری چیز ہے اور ایمان کی جگہ انسان کا دل ہے“۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے ہرگز نجات نہیں پائے گاکسی نے عرض کیا یا رسول ؐ آپ بھی نہیں ؟آپ نے فرمایا ہاں میں بھی نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت میں مجھے ڈھانپ لیا ہے۔لہٰذا بلا اختلاف امت ،ازوئے تحقیق و حقیقت ایمان معرفت ہے اور اقرار عمل کو بجالانا ہے اور جسے خدا کی معرفت ہوگی اس کو اس کے کسی وصوف کی بھی معرفت ہوگی۔

‘ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’سلا طین جب کسی بستی پر غالب ہوکر داخل ہوتے ہیں تو اسے ویران کردیتے ہیں‘‘ جب عارف کے دل میں معرفت کی حقیقت غالب ہو کر داخل ہوجاتی ہے تو طن و شک اور انکار کی طاقت فناکردیتی ہے اور سلطان معرفت (حق تعالیٰ) اس کے حواس اور خواہشات کو اپنا گرویدہ بنالیتا ہے تاکہ وہ جو کچھ کرے ،دیکھے اور جو کہے سب اسی کے زیر فرماں ہو۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اﷲ تعالیٰ ہی پر توکل رکھو اگر تم صاحب ایمان ہو‘‘ حضرت محمد بن خفیف ؒ فرماتے ہیں’’ ایمان یہ ہے کہ جو غیب سے اس کے دل پر انکشاف ہو اس پر یقین رکھے‘‘

Yahan Tehzeeb Bikti Hay, Yahan Frman Biktay Hen
Zra Tum Daam Badlo, Yahan Imaan Biktay Hen


اپنا تبصرہ بھیجیں