اللہ کے رسول ﷺ نے رشوت دینے والے
اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت کی ہے
(سنن ابی دواؤد)
زمانہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے اورآئے دن نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں،ایسے ترقی یافتہ دورمیں رشوت کی کوئی خاص شکل وصورت متعین نہیں ہے، اور اب صرف کاغذکے چندنوٹوں کے لین دین کانام رشوت نہیں ہے؛بلکہ زمانہ اورحیثیت کے اعتبارسے رشوت کی شکلیں بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں،اگرکوئی عام آدمی کسی کلرک کورشوت دیتاہے تووہ وہ چندنوٹوں کی شکل میں ہوتاہے،لیکن اگریہی رشوت کوئی خاص شخص کسی بڑے عہدہ دار، مثلاً وزیریاکسی بڑے صاحبِ منصب کو دیتاہے تووہ کبھی بنگلہ،موٹرکاریاپھرکسی بیرون ملک کے سیاحتی ٹکٹ وغیرہ کی شکل میں ہوتاہے، جسے وہ ہدیہ یانذرانہ کاخوبصورت نام دے دیتاہے؛لیکن درحقیقت وہ رشوت کی ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے؛اس لیے صرف کاغذکے چند نوٹوں کے لین دین کوہی رشوت نہیں کہہ سکتے،اس کے علاوہ بھی ہروہ شئی جواپنے جائزیاناجائزمقاصدکوحاصل کرنے کے لیے کسی اہل منصب کودیاجائے گاوہ رشوت ہی ہوگا۔
رشوت کی برائی احادیث میں:
رشوت کے لینے اوردینے والوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں بتائی ہیں،
٭ حضرت عبداللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے“۔(رواہ ابن ماجہ)
٭جس انسان کا گوشت پوست ظلم اور سود سے بنا ہے تو اس جسم کے لیے جہنم کی آگ زیادہ بہتر ہے۔ ( مشکوۃالمصابیح، کتاب البیوع)
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد حضرت ابوبکر صدیق ر ضی اللہ عنہ سے منقول ہے: ’’جس بدن کو حرام کی غذا کھلا کر پالا گیا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ( بیہقی )
٭ ایک دوسری حدیث میں اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں آگ میں ہیں۔
٭ ایک حدیث میں سخت حرام کی تشریح کرتے ہوئے رشوت اور زنا کی آمدنی کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : سخت حرام آمدنی کے دو دروازے ہیں جن سے لوگ کھاتے ہیں، رشوت اور عصمت فروشی۔
٭ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور اس پر بھی جو رشوت کا معاملہ کرائے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی)
٭ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی کی سفارش کرے اور وہ اسے کچھ ہدیہ دے اور یہ قبول کرے تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے پر آگیا۔ (ابوداؤد)
رشوت کی برائی قرآن میں:
رشوت کی ممانعت میں قرآن کریم کی ایک اورآیت صریح طورپردلالت کرتی ہے:
٭ وَلاَ تَأکُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَا الیٰ الْحُکَّامِ لِتَأکُلُوْا فَرِیْقًا مِنْ أمْوَالِ النَّاسِ بِالْاثْمِ وَأنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ:(البقرة:۱۸۸)
اورنہ کھاوٴ مال ایک دوسرے کاآپس میں ناحق اورنہ پہونچاوٴ ان کوحاکموں تک کہ کھاجاوٴ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کرکے(ناحق)ا ورتم کومعلوم ہے۔
یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کاحق ہو؛لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو،اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکروہ عدالت یاحاکم مجازسے اپنے حق میں فیصلہ کروالے اوراس طرح دوسرے کاحق غصب کرلے۔یہ ظلم ہے اورحرام ہے۔عدالت کافیصلہ ظلم اورحرام کوجائزاورحلال نہیں کرسکتا۔یہ ظالم عنداللہ مجرم ہوگا۔(ابن کثیر)