اچھی نیت والوں کو سکون ڈھونڈنا نہیں پڑتا
اچھی نیت والوں کو
سکون ڈھونڈنا نہیں پڑتا
.
ان کے “دل” کسی نکھری “صبح” کی طرح
اجلے اور پر سکون ہوتے ہیں
اچھی نیت کا مطلب جو بھی کام ہو وہ خلوص دل سے ہو اوراللہ کیلئے خاص ہو، یعنی انسان کی قولی، عملی، ظاہری اور باطنی تمام عبادات رضائے الہی کے حصول کیلئے ہوں۔اس کام میں کوئی مطلب یا دکھاوا نہ ہو- اسکے کام میں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی شامل ہو- ایسے لوگ بہت پرسکون رہتے ہیں ان کا دل ودماغ کسی اجلی اور نکھری صبح جیسا ہوتا ہے- اسے لوگ اللہ تعا لیٰ کو بہت محبوب ہوتے ہیں اور لوگوں میں بھی ہر دلعزیز ہو جاتے ہیں- قرآن کریم میں ارشاد ہے-
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا﴿۹۶﴾(پ۱۶،مریم:۹۶)
ترجمۂ کنزالایمان:بےشک وہ جوایمان لائے اور اچھے کام کئے عنقریب ان کے لیے رحمٰن محبت کر دے گا۔
“نیت ” کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایما ن کو وہ نسخہ کیمیاء عطافرمایا ہے جس کے ذریعے ہر مسلمان ذرا سی توجہ سے مٹی کو بھی سونا بنا سکتا ہے ۔ حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ “تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ”
بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اچھی نیت سے غلط کا م بھی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ اور گناہ بھی ثواب بن جاتا ہے یہ بات تو قطعی غلط ہے ۔ گناہ ہر حالت میں گنا ہ ہے ۔ کتنی ہی اچھی نیت سے کیا جائے وہ جائز نہیں ہو سکتا ۔مثلاً کوئی شخص کسی کے گھر اس نیت سے چوری کرے کہ جو مال حاصل ہو گا وہ صدقہ کروں گا تو اس نیت کی وجہ سے چوری کا گناہ معاف نہیں ہو گا۔
لیکن آنحضرت ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ :
کسی بھی نیک کام پر اس وقت تک ثواب نہیں ملتا جب تک وہ صحیح نیت کے ساتھ نہ کیا جائے ۔ مثلاً نماز کا ثواب اسی وقت ملے گا جب وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے پڑھی جائے ۔ اگر دکھاوے کے لئے پڑھی تو ثواب غارت ہو جائے گا ۔ الٹا گناہ ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاص نصرت و مدد’ اللہ کے عذاب سے نجات’ دنیا و آخرت میں بلندی درجات کا سبب ہے’ مخلص انسان سے اللہ عز وجل کی محبت اور پھرزمین و آسمان والوں کی محبت سے سرفرازی کا سبب اخلاص ہی بنتا ہے، یہ در حقیقت ایک نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ودیعت فرمادیتا ہے’ ارشاد ہے:
“وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّـهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ”﴿٤٠﴾ (سورۃ النور)
“اور (بات یہ ہے کہ) جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔”
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
[ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ] (الملک:2 )
یعنی: (اللہ تعالی نے موت و زندگی پیدا کی) تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب (اور)بخشنے والا ہے۔
عمل کے ساتھ احسان یہ ہے کہ نیت صحیح ہو اور ظاہر اور باطن میں اللہ تعالی کے لئے اخلاص ہو۔ جس شخص نے عمل میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرایا ، تو اس کی عمل راکھ ہو جائے گی، اور اس کی محنت و مشقت ضائع ہو جائے گی۔اس کے قول اور فعل (اعمال)کی برکت زائل ہوجائے گی، اور وہ خسارہ زدوں میں سے بن جائے گا۔