اگر الله نہ چاہے


تم چاہ بھی نہیں سکتے
اگر الله نہ چاہے
(سورہ التکویر)

اگر الله نہ چاہے

کائناتِ ارض و سماء میں اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر کوئی امور انجام نہیں پاتا۔ ایک معمولی پتہ نہیں گرتا مگر اس کے علم میں ہوتا ہے۔ انسان اگلے لمحے کیا کرنے والا ہے؟ اس کی خبر االلہ تعالیٰ کو ازل سے ہے، اسی علمِ الٰہی کا نام تقدیر ہے۔ اللہ کے علم نے انسان کو فعل پر مجبور نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اوامر اور نواہی کے احکام جاری فرما کر انسان کو اختیار دیا ہے کہ خیر کو اپنا لے یا شر کو، ایمان لائے یا کفر کرے۔ ارشاد ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ. -الْكَهْف، 18: 29
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِO وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِO وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO – الْبَلَد، 90: 8 تا 10
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں؟ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)؟ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔

قرآن مجید نے خدا تعالیٰ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ خدا اچھی صفات کا حامل ہے اور اور وہ لوگوں کو بھی خیر ہی کے داعی بننے کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَلِلّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا. – الْأَعْرَاف، 7: 180
اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام (اور صفتیں) ہیں، سو اسے انہی ناموں سے پکارا کرو۔

اچھائی اور برائی کے وقوع کا فرق کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ‘اچھائی اللہ کی طرف سے اور برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اللہ نے اچھائی کا حکم دیا ہے اور وہ اس پر راضی ہے اور برائی کرنے کا نہ تو اس نے حکم نہیں دیااور نہ ہی وہ اس پر راضی ہے، مگر یہ اس کے اذن سے ہی اثر پذیر ہے۔

اچھائی و برائی دونوں اللہ کی مشیت و ارادے سے مؤثر ہیں، از خود نہیں۔ اچھائی اللہ کے ارادے و مشیت کے ساتھ ساتھ اسکے حکم اور رضا سے بھی ہےجبکہ برائی اللہ کے ارادے و مشیت سے اثر پذیر توہے مگر اُس کے کسب میں اسکا حکم اور رضا شامل نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

Tum Chah bhi Nahi Sktay
Agr Allah Na Chahy


اپنا تبصرہ بھیجیں