جب کسی مظلوم کو انصاف نہیں ملتا اور ظلم اس کے سامنے دندناتا پھرتا ہے تو وہ انتقام کی آگ میں تمام اخلاقی اور قانونی پابندیاں بھول جاتا ہے ۔ احتجاج ایک ذہنی اور جذباتی کیفیت کا نام ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت اس کیفیت سے دوچار ہے۔ ہمارے اجداد زندگی کے ہر رخ کو چشم بینا سے دیکھتے تھے جبکہ ہم نے جس طرح اپنی روایات اور زندگی گزارنے کے ہر پہلو کو داؤ پر لگا رکھا ہے،اپنی فکراور طرزِ حیات کو زنگ آلود کررکھا ہے۔ جب سے ہماری سیاسی زندگیوں پر غیروں کی گرفت مضبوط ہوئی ہے، ہماری معاشرتی زندگی میں دراڑیں ہی نظر آتی ہیں۔احتجاج کے دوران موٹرسائیکل پر لٹھ برساتے شخص کی تصویر حالاتِ حاضرہ کی واضح نشان دہی کررہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ :
اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
کاش! اس حقیقت کا ادراک کیا جائے کہ ہم نے محرومیوں کے خاتمے کے لئے آزادی حاصل کی تھی۔ وہ محرومیاں جو اغیارکے امتیازی رویوں کے باعث ہمارے نصیب کا حصہ بنا دی گئی تھیں لیکن اب توقدم قدم پر اپنوں کا راج ہے ، اس کے باوجود ظلم و نا انصافی کا یہ عالم ہے کہ عوام کا ناطقہ بند ہے ، غربت و افلاس نے عوام کی ذہنی الجھنوں میں اضافہ کردیا ہے۔ کیا کوئی ملک ایسا ہے جس میں ہر سال 60لاکھ سے بھی زیادہ بچے بھوک کے باعث موت کی نیند سو جاتے ہوں اور لاکھوں فاقوں پر مجبور ہوں۔
بجلی کا محکمہ، اسپتالوں کے ڈاکٹر و نرسیس ،دفاتر میں ’’یس سر،یس سر‘‘ کرتے جونیئر ملازمین ، اسکولوں کی ناگفتہ بہ حالت ، ریلویز وایئرلائنز کی بربادی، آخر کس کس نااہلی کا ذکر کریں۔ صنعتی نمائشیں اور تعلیمی کارکردگیوں کے چرچے، سب خانہ پُری کی حد تک ہیں۔ آج اپنے رہنماؤں کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرنے والا کوئی نہیں۔ عجیب قسم کی ہلڑبازی ، موسیقی، رقص کے زیر عنوان اچھل کود اور جگت بازی کو’’ مزاح‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ 3کروڑ سے زائد افراد ذہنی امراض اور یاسیت میں مبتلا ہیں۔ بھوک اور غربت نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے، ثقافت داؤ پر لگی ہے۔
ان نامساعد حالات میں ہر دل کی یہی پکار ہے کہ: یہ عمر ہے تھوڑی مگر ارمان بہت ہیں ہمدرد نہیں کوئی، پرانسان بہت ہیں ہم درد سنائیں تو سنائیں کسے دل کا سن سکتے ہیں جو درد ، وہ انجان بہت ہیں ’’رول آف لاء‘‘ یعنی قانون کی حکمرانی ناپید ہونے کی وجہ سے سرابھارتی سماجی درجہ بندی ہی در اصل کرپشن کی جڑ ہے۔ انسانی ضمیر ناجائز معاملات پر سرخ بتی ضرورجلاتا ہے تاہم یہ اس انسان پرمنحصر ہے کہ وہ اس کا اثر قبول کرتا ہے یا نہیں۔احتجاج کرنے والوں نے تو اے ٹی ایم جیسی بھاری مشینوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ معاشرتی مزاج کی اس بدحالی کی ذمہ داری ہمارے کرتا دھرتاؤں کے سر ہے۔ ہمارے بعض شہروں میں قبر کے مردوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
شاید ہم لوگ بھول چکے ہیں کہ روزِ آخرت ہمیں اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے ۔ ہم نے دنیا کے اس عارضی پڑاؤ کوہی اپنا دائمی مستقر سمجھ لیا ہے۔شاید انہی حالات کے لئے کہا گیا ہے کہ :
ایسے زخموں کا کیا کرے کوئی
جن کو مرہم سے آگ لگ جائے