اگر نیّتوں کا اثر چہروں پہ نظر آنے لگتا تو
معاشرے کا ہر فرد نقاب کرنے پر مجبور ہو جاتا
ایک بادشاہ ایک مرتبہ شکار کو گیا اور جنگل میں اتفاق سے راستہ بھول کر اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا،اور طرہ یہ کہ شام ہوچکی تھی۔ بادشاہ پریشانی سے ایک سمت کو دیکھ رہا تھا ۔ دور بہت دور گھنے درختوںکے درمیان تھوڑی سی روشنی نظر آرہی تھی۔ بادشاہ اسی طرف چلا اور وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت اور ایک نوجوان لڑکی ایک صاف ستھری جھونپڑی میں موجود ہیں۔
بادشاہ نے آگے بڑھ کر ضعیفہ کو سلام کیا اور رات میں پناہ لینے کی اجازت چاہی۔بڑھیا نے بڑی خوشی سے مہمان کا استقبال کیا اور اس کی خوب آؤ بھگت کی۔
بادشاہ نے دیکھا کہ بڑھیا کی جھونپڑی کے پاس ایک ایسی تندرست گائے بندھی ہے کہ اس قدر تندرست اور خوبصورت گائے شاہی محل میں نہ تھی۔ خیر صبح ہوئی اور بادشاہ جب جاگا تو کیا دیکھتا ہے کہ ضعیفہ کی لڑکی گائے کا دودھ نکال رہی ہے ۔ بادشاہ حیران تھا کہ گائے نے قریباً ایک من دودھ دیا تھا۔
اسی وقت بادشاہ نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ جنگل کی گھاس کا اثر ہے۔ اب دارالحکومت پہنچتے ہی جنگل کو چراگاہ میں تبدیل کرا دوں گا اور یہاں صرف شاہی مویشی ہی چرا کریں گے۔
بادشاہ کو چوں کہ راستہ نہیں معلوم تھا؛ اس لیے وہ ساتھیوں کی اُمید پر کہ تلاش کرتے ہوئے وہ ضرور آئیں گے دن بھر ٹھہرا رہا مگر کوئی نہ آیا یہاں تک کہ شام ہوگئی اور گائے جنگل سے چل کر واپس آگئی تو ضعیفہ نے کہا: بیٹی! دودھ نکال لے ، اندھیرا ہوا چاہتا ہے۔جب وہ لڑکی دودھ نکالنے بیٹھی تو خلافِ توقع دودھ بہت ہی کم نکلا۔ بڑھیا نے دودھ کی کمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:لگتا ہے کہ ہمارے بادشاہ کی نیت میں کچھ فرق آگیا ہے۔
بادشاہ یہ سن کر دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوا اور خدا سے توبہ کی۔ جب صبح کو پھر گائے دوہی گئی تو وہی کوئی ایک من کے قریب دودھ نکلا۔
اس لیے اپنی نیت ہمیشہ صاف رکھواور کسی کی چیز دیکھ کر لالچ نہ کرو۔
اسلام کے سارے اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور نیت کا تعلق دل کے ساتھ ہے گویا کہ دل سارے اعمال کا سر چشمہ اور منبع ہے دل اور اس کا ارادہ اعمال و افعال میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اس لئے ہمارے دینی کتب میں جا بجا نیت کی درستگی کے متعلق ارشادات و اقوال موجو دہیں نبی کریم ﷺنے فرمایا
’’ انما الاعمال باالنیات‘‘
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے