جن کی نظروں میں ہم نہیں اچھے
کچھ تو وہ لوگ بھی بُرے ہوں گے
قرآن مجید میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ…(الحجرات۴۹: ۱۲)
”اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں…”
قرآن مجید نے محض بدگمانی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں ظنون تراشتے رہیں۔ یہاں سیاق کلام سے یہ بات بالکل متعین ہے کہ یہاں جن گمانوں کی بات ہورہی ہے ، وہ لوگوں ہی سے متعلق ہیں۔یعنی اخلاقی دائرے میں آنے والے گمان۔ انھی کی کثرت بری چیزہے۔چونکہ یہ اخلاقیات سے متعلق ہے۔ اس لیے اخلاقیات میں ہر خرابی اسلام کے نزدیک برائی ہے،ا ور وہ ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔
گویا لوگوں کے بارے میں ہمیں اصل میں ان ہی کے عمل و نظریہ کی بنیاد پر رائے بنانی چاہیے۔ ان کے بارے میں ہماری رائے نہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جوبلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہوں۔ہمارے وہ خیالات جن کی بنیاد محض ہمارا گمان ہو ، درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی
گمانوں کی کثرت سے اسی لیے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے ، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو اپنی آرا کو حتی الامکان ٹھوس چیزوں پر مبنی کرنا چاہیے۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے. آمین