بہترین یاداشت


بہترین یاداشت یہ ہے کہ انسان اپنی نیکیاں
اور دوسروں کی برائیاں بھولتا جائے

بہترین یاداشت

ایک انسان کے ثقہ، نیک اور اچھا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کی ظاہری خوبیاں اس کی برائیوں پر حاوی ہوں۔ اگر بدقسمتی سے اس کی برائیاں اس کی نیکیوں پر حاوی ہو جائیں تو بھی انسانی محبت اور اسلامی اخوت کا یہی تقاضا ہے کہ اس کی اچھائیاں بیان کی جائیں اور اس کی برائیوں کی پردہ پوشی کی جائے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جن کی اپنی برائیاں ان کی خوبیوں پر حاوی ہیں دوسروں کی عیب بینی میں لگے رہتے ہیں۔ اور کسی شخص کی برائی کو کرید کرید کر نکالنا گویا ان کا مشغلہ رہتا ہے۔ ہم ذرا غور کریں کہ یہ کیسا گھناؤنا جرم ہے، اور اگر ہم عیب نمائی کے بجائے عیب پوشی کرنے لگ جائیں تو اس سے کتنی عظیم نیکی اور مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔

صحابی جابر بن عبداللہؓ کے پاس ایک حدیث تھی۔ انہوں نے سنا کہ مصر میں ایک صحابیؓ ہیں جن کے پاس بھی یہ حدیث ہے، اور ان کے علاوہ کوئی اور صحابیؓ اس وقت نہیں ہیں جو اس حدیث کا علم رکھتے ہیں۔ وہ اونٹ پر سوار ہوئے اور مدینہ منورہ سے مصر پہنچ گئے۔ وہ
صحابیؓ مصر کے گورنر تھے۔ دروازہ پر دستک دی۔ ملازم نکلا تو اس سے کہا کہ گورنر سے کہو کہ باہر آجائے۔ ملازم کو حیرت ہوئی کہ یہ کون اتنا بے تکلف شخص ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی نہیں کہتا ہے۔ بہرحال ملازم نے جاکر کہہ دیا کہ باہر ایک بدو آیا ہے اور کہتا ہے کہ گورنر سے کہوکہ باہر آکر ملاقات کرے۔ وہ صحابیؓ اپنے ساتھیوں کے مزاج شناس تھے انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ کوئی نہ کوئی صحابیؓ ہوں گے۔ ملازم سے کہا کہ پوچھ کر آؤ کہ ان کا نام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ: ’’جابر‘‘۔ وہ صحابیؓ سمجھ گئے کہ یہ جابر بن عبداللہؓ ہوں گے۔ بھاگے ہوئے آئے، گلے لگایا اور پوچھا کہ کہو کیسے آنا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس ایک حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’من ستر عورۃ مسلم فکانما احیا مودۃ‘‘ یعنی جس نے کسی مسلمان کی کسی کمزوری کو چھپایا وہ ایسا ہی ہے جیسا کسی نے زندہ درگور کی جانے والی بچی کو زندگی بخشی۔ کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا ایسا عظیم کار ثواب ہے کہ جیسا کسی ایسی جان کو بچا لینا جس کو اس کے رشتہ دار زندہ دفن کرنے پر آمادہ ہوں۔ گورنر صاحب (صحابیؓ) نے تصدیق کی، دوبارہ حدیث کے ٹھیک وہی الفاظ دہرائے۔ انہوں نے یہ الفاظ سنے۔ خوشی میں نعرہ تکبیر بلند کیا اور اسی وقت واپس تشریف لانے کے لیے پلٹے۔

صحابی ابو ایوب انصاریؓ کو پتا چلا کہ یہی حدیث دوسرے الفاظ میں ایک صحابیؓ کے پاس ہے۔ انہوں نے بھی مدینہ منورہ سے مصر کا سفر کیا۔ ان صحابی کے مکان پر دستک دی اور یہ حدیث ان الفاظ میں سنی کہ: ’’من ستر مومناً فی الدنیا سترہ اللہ فی یوم القیامۃ‘‘، جو شخص اس دنیا میں کسی مومن کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا، انہوں نے اللہ اکبر اور الحمدللہ کہا اور اپنی سواری واپسی کے لیے موڑ دی۔

اپنے بھائیوں اور بہنوں کی عیب پوشی کریں۔ کون نہیں چاہے گا کہ اسے زندہ درگور کی جانے والی بچی کو بچا لینے کا اجر ملے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں اور عیوب کو ڈھانپ دیں۔ اگر ہم یہی رویہ اسلام اور مسلمانوں کے ماضی کے ان مشاہیرین کے لیے بھی رکھیں جن کے اخلاص پر تو شک نہیں ہے لیکن ان کے طریقہ کار پر اختلاف ہے۔ رائے اور منہاج پر اعتراض کے باوجود ان کی نیکیوں اور خدمات ملی کو اجاگر کریں۔ ہم اپنے کالم نگاروں کو پڑھتے ہیں تو ان کے یہاں شخصیات پر تبصرہ میں افراط و تفریط پایا جاتا ہے اور اعتدال قائم نہیں رہتا۔ ہمارا شخصیات (ماضی اور حال کی) پر جو تبصرہ ہوتا ہے اس میں ہم یا تو کسی کو ’’ رحمان‘‘ بنا دیتے ہیں یا ’’شیطان‘‘۔ حالاں کہ ان میں سے کوئی بھی نہ رحمان ہوتا ہے اور نہ شیطان۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ شخصیات کی نیکیوں اور خدمات کو سامنے رکھا جائے اور یہ کہ حتی المقدور برائیوں کو ڈھانپا جائے۔ اور جس طرح ہم اپنے لیے اللہ کی رحمت، مغفرت اور دوزخ کے آگ سے بچنے کے خواہش مند ہیں ہماری یہی خواہش اپنے اکابرین اور مشاہرین کے لیے بھی ہونا چاہیے۔

Behtreen Yaadasht Yeh Hai Kah Insaan Apni Naikiyan
Aur Dosron Ki Buraiyan Bholta Jaye


اپنا تبصرہ بھیجیں