کسی کو رب سے سب چاہیے
کسی کو رب سے رب چاہیے
’انسان کاخیال امیر ہوتو وہ خوش نصیب ہو تا ہے اوراگر خیال غریب ہوتو دولت کی ریل پیل میں بھی بد نصیب‘‘۔ انسان کے لیے سامانِ تعیش وآسائش ضرورت بن کے رہ جاتے ہیں اوردوسرے کے لیے رشتہ جاں اورتارِ نفس کی بقا ء سے زیادہ کوئی اہم ضروت نہیں ہوتی ۔ انسان حریص ہے،نا شکراہے ، ظالم ہے،مسافر خانے میں ہمیشہ آباررہنا چا ہتا ہے ،قبر ستان میں کھڑے ہو کراپنے ہمیشہ رہنے کا بے بنیاد دعویٰ کر تا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس دنیا میں جو آیا اسے واپس جانا پڑتا ہے، پھر دعویٰ کیا؟ قیام کیاپھرجبری رخصت، اگرٹھہرنامقدم ہوتورخصت کی کیا ضروت!اوراگرجانا ضرورت ہوتوٹھہرنے کے منصوبے بے معنی ہیں ۔ اگر ظاہری مرتبے قائم رہ جائیں تو انسان اندر سے قائم نہیں رہتا ۔ باہر سے خطرہ نہ ہو تو بدن کی چہار دیواری اندرسے گلنا شروع ہوجاتی ہے انسان اپنے بوجھ تلے آ پ ہی دب کر رہ جا تا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خواہشات کی دیواروں میں چنوا تا رہتا ہے اور جب آخری پتھر اس کی سانس روکنے لگتا ہے تو پھر وہ شور مچا تا ہے کہ اے دنیا والو! کثرت، خواہشات سے بچو، کثرت سہولت سے گریز کر و، مال کی محبت سے پر ہیز کرو، کثرتِ مال تمہیں غافل کردے گی۔
مال ودولت کے سہارے حکومتیں کرنے والے بالآخر کار ندامتوں اوررسوائیوں کے حوالے کر دیئے گئے ۔ دولت عز ت پیدا نہیں کرتی ،وہ خوف پیدا کرتی ہے اور خوفز دہ انسان معزز نہیں ہو سکتا ۔ غریبی محتاج رہنے کی وجہ سے خالق کے در پر سر نگوں رہتی ہے اور یوں غریبی قربِ حق کا ایک قوی ذریعہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان غریب ہو جائے یااسے غریب ہی رہنے دیا جائے ۔ ایک سماج میں امیرا ور غریب کے درمیان جتنا فاصلہ بڑھتا جائے گا، اتنی ہی سماج میں کر پشن بڑھے گی۔ وہ معاشرہ تباہ ہوجائے گاجہاں غریب کونظرانداز کر دیا گیا۔ غریب ہی امیر کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ غریب سائل ہے اور امیر سخی نہ ہو تو اسے بخیل ہونے کی سزادی جائے گی۔ غریب حقدار ہے اوراگراس کو اس کا حق نہ دیا جائے تو حق غصب کرنے والے کو عذاب میں گرفتار کر دیا جائے گا اور عذاب کی انتہائی شکل یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل سے دولت ِ تسکین نکال لی جائے گی اوریوں ایک امیرانسان پیسے کی فراوانی کے باو جود پیسے کی شدت میں مبتلا ہوکرایک اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو گا ۔
امیر آدمی کا خوف غریب کے خوف سے زیادہ ہو تا ہے ۔ غریب کے پاس توپھربھی اچھازمانہ آنے کی امیدہو سکتی ہے لیکن امیر کے لیے برے زمانے کے آجانے کا خوف ہمیشہ سرپرتلوار بن کر لٹکتا رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں پیسہ نہیں بچا سکتا بدنامیوں سے، بے عزتیوں سے ، دشمنوں سے ، موت سے، پھر پیسہ کیا کر تا ہے ؟صرف نگاہ کو آسودہ کر تا ہے اور یہ آسودگی دل کو مردہ کر دیتی ہے ،بے حس بنا دیتی ہے اور آدمی کثرتِ مال کے باو جو دتنگی خیال میں مبتلا ہو کر اذیت ناک انجام سے دو چار ہو جا تا ہے۔
دین اسلام میں مسلمانوں کے لیئے قدم قدم پر رہنمائی موجود ہے ۔صدق دل سے ایک چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی نیکی کے زمرے میں آتا ہے ۔یہی عمل صالح آخرت میں نجات کا باعث ہونگے ۔حوس اور لالچ پرستی کے اس دور قبیح میں عمل صالحہ کا جھنڈا سر بُلند کرنے والے افراد کی ابھی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔جو مال و زر کو جمع کرنے کی بجائے انسانیت کی فلاح و بہبود کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہیں اوراپنے نفس پر قابو پاکر ہر لمحہ مخلوق خد ا کی خدمت کو اپنا شعار بنانے والوں کے لیئے ہی شاید بُلھے شاہ نے کہا تھا ۔
رب رب کردے بُڈھے ہو گئے ،مُلاں پنڈت سارے
رب دا کھوج کُھرا نہ لبھا ،سجدے کر کر ہارے۔
رب تے تیرے اندر وسدا ،وچ قرآن اشارے
بُلھے شاہ رب اونہوں ملدا،جیڑا اپنے نفس نو مارے