گفتگو کی دو شرطیں


گفتگو کی دو شرطیں ہیں
☑ تمیز سے کی جائے
☑ دلیل سے کی جائے

گفتگو کی دو شرطیں

گفتگو کی شرائط

گفتگو تمیز سے کی جائے
گفتگو ایک فن ہے، جو کبھی آپ کو بلند مقام پر لے جاتی ہے اور کبھی کبھی انسان کے اپنے الفاظ اسے پستیوں کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔گفتگو معلومات فراہم کرنے، خیالات کا اظہار، باہم دلچسپیوں کا تبادلہ کرنے کا وسیلہ ہے-اچھی گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے اور بہت سے لوگ اس فن سے ناآشنا ہوتے ہیں ہمارے اردگرد موجود لوگ ہماری بات چیت کے انداز سے ہی ہمارے بارے میں مثبت یا منفی رائے قائم کرتے ہیں- بندہ اچھی بات مؤثر انداز سے کہے یعنی تمیز کے دائرے میں رہ کے بات کی جائے، کسی کی بات کاٹنا بھی خلاف تہذیب بات ہے اکثر لوگ دوسروں کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ بات کاٹنے کی معافی چاہتا ہوں، کسی کی بات کاٹنی نہیں چاہیے اور دھیان سے سننی چاہیے، اگر دوران گفتگو آپ کی بات کاٹی جائے تو سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ خاموش ہو جائیں یہ بھی تمیز کی ایک قسم ہے-

کسی دانش ور کا قول ہے کہ جو تمیز کے دائرے میں رہ کے بات کرتا ہو اور جو اچھا سامع اور کم گو ہو اس کا ہر وقت اور ہر جگہ بہترین استقبال کیا جاتا ہے-

انسان کی شخصیت اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جہ کچھ لوگوں کا انداز گفتگو اتنا نرم اور خوبصورت ہوتا ہے کہ ان کی کہی گئی ہر بات اچھی لگتی ہے۔ اچھا بولنے کے لئے اچھا سننا بہت ضروری ہے اگر آپ سنیں گے نہیں، آپ سیکھیں گے نہیں۔ اخلاقی اقدار کی برتری اس وقت ممکن ہوسکتی ہے، جب ادا کیے گئے الفاظ کسی کی دل آزاری نہ کریں۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔ خود ستائش (ذات کی تعریف) پر مبنی نہ ہوں۔

گفتگو دلیل سے کی جائے
ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ جو کہے اسےتوجہ کے ساتھ سنا جاے اور اس کی بات کومعتبر سمجھا جائے۔ اسے گفتگو کے بیچ ٹوکا نہ جائے۔ اس کے سنائے ہوئے لطیفے پر ہنسا جائےا ور اس کی بتائی ہوئی سنجیدہ بات کو سنجیدگی سے سنا اور اس پر مناسب ردعمل کیا جائے- کچھ لوگوں کو گفتگو کا فن آتا ہے ان کو کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی گفتگو موثر ہوتی ہے اور سننے والا کام چھوڑ کر بھی ان کی بات سنتا اور سمجھتا ہے۔ اگر آپ چند لوگوں میں بیٹھیں ہیں تو جو بات نہ پتہ ہو، معذرت کر لیں۔ اور اگر کسی کے پاس کسی بھی فیلڈ میں آپ سے زیادہ علم ہے تو کھلے دل سے اسے مان لیں۔ اور جو بات پتہ ہو اس کو دلیل کے ساتھ کریں- لیکن عقلِ کل نہ بنیں۔ ہر بات میں اپنی ماہرانہ رائے دینی ضروری نہیں ہوتی۔ جس بات کا علم ہو صرف اسی بات کو دلیل سے کریں یہ بھی یاد رکھیں کے جو ہم دلائل دے رہے ہیں اس سے سامنے والے کی توہین تو نہیں کر رہے کیونکہ ہر انسان جس سے زندگی میں آپکا سامنا ہو گا، وہ کچھ نہ کچھ ایسا جانتا ہے جو آپ نہیں جانتے۔ کسی کا مطالعہ وسیع ہو گا تو کسی نے تجربات سے سیکھا ہو گا۔ کسی کی تعلیم زیادہ ہو گی، کسی کے پاس ہنر زیادہ ہو گا -اس لیے جس بات کا علم ہو صرف اسی پر اپنی گفتگو میں وسعت لائیں

ارسطو نے اچھی گفتگو کو تین مختلف زاویوں میں تقسیم کیا ہے۔

Ethos اس یقین اور سچائی کا نام ہے، جو کہنے اور سننے والے کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کر دیتا ہے۔ لہٰذا گفتگو بامعنی، پراثر اور واضح ہوتی ہے۔ ایسی گفتگو موضوع پر دسترس رکھتی ہے۔ بولنے والے کو مدمقابل کی ذہنی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

Pathos یہ سننے اور کہنے والے کے درمیان جذباتی معاہدہ کہلاتا ہے۔

Logos جس کے مطابق گفتگو حقیقت پسندانہ اور منطقی ہونی چاہیے۔ یہ گفتگو تجزیاتی سوچ، حکمت عملی اور مشاہدے پر منحصر ہوتی ہے۔ دور اندیش لوگ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں ۔ لفظوں کا غلط چناؤ غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔

Guftagu Ki Doo Shartein Hain
Tameez Say Ki Jay☑
Daleel Say Ki Jay☑


گفتگو کی دو شرطیں” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں