چلو اب مان جاؤ تم
درندے ہم سے بہتر ہیں
ایک مسافر نے جنگل میں ایک کنوئیں سے پانی پینے کا ارادہ کیا تو اس میں شیر، سانپ اور انسان کو دیکھا۔ شیر نے نکالنے کی التجا کی۔ مسافر نے کہا کہ ’’تم مجھے کھا جاؤ گے۔‘‘شیر نے کہا ’’نہیں، بلکہ احسان کا بدلہ دوں گا۔‘‘چنانچہ اس نے شیر کو نکال دیا۔ پھر سانپ نے التجا کی کہ ’’وہ بھی نقصان پہنچانے کے بجائے احسان کرے گا۔‘‘چنانچہ مسافر نے اس کو بھی نکال لیا۔آخر میں انسان کی التجا پر اس کو بھی نکال لیا۔سانپ نے مسافر کو چند بال دئیے اور کہا کہ ’’ضرورت پر ایک بال جلا دینا میں فوراً آ جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
شیر نے کہا کہ ’’کوئی قافلہ گزرے تو میں اسے روک لوں گا۔ تم قافلہ والوں سے کہنا کہ اتنا مال دو تو میں شیر سے نجات دلاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور قافلہ والوں سے سونا، چاندی اور دوسرا مال لینے کے بعد اس نے شیر سے راستہ چھوڑ دینے کو کہا اور شیر چلا گیا۔
انسان نے بھی اپنی راہ لی۔مسافر ایک شہر میں پہنچا تو اس نے سوچا کہ یہ مال بیچ کر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لوں۔ اتفاق سے جس تاجر کے پاس پہنچا وہ وہی تھا جس کو مسافر نے کنویں سے نکالا تھا۔ تاجر نے اسے بٹھایا اور فوراً ایک آدمی حاکم کے پاس روانہ کیا کہ ایک شخص جس نے قافلہ کو لوٹا تھا، موجود ہے۔ پولیس آئی اور پکڑ کر لے گئی۔حاکم نے تفتیش کے بعد پھانسی کا حکم دیا۔ اس نے سانپ کا دیا ہوا ایک بال جلایا، سانپ فوراً آ گیا اور یہ معاملہ دیکھ کر حاکم کے بیٹے کے گلے میں لپٹ گیا۔ لوگ حیران تھے کہ کیا کریں۔ مسافر نے کہا کہ ’’اگر مجھے چھوڑ دو تو میں بچے کو سانپ سے نجات دلائے دیتا ہوں۔‘‘چنانچہ اس نے سانپ سے کہا اور سانپ چلا گیا۔ حاکم نے کہا تو ’’ایسا شخص ہے کہ سانپ بھی تیرا کہا مانتا ہے۔‘‘اس نے کہا ’’تاجر کو بلاؤ تو بتلاؤں۔‘‘چنانچہ تاجر کو بلایا گیا۔ مسافر نے قصہ سنایا اور حاکم نے تاجر کو سولی پر چڑھا دیا-
یہ تو کہانی ہے انسان اشرف المخلوقات ہے، سوچ سکتا ہے سمجھ سکتا ہے محسوس کرسکتا ہے، اچھے برے، صحیح غلط میں تمیز کرسکتا ہے، ان ساری خوبیوں کے باوجود انسان کی پوری تاریخ درندگی سے بھری ہوئی ہے، جنگل کے درندوں اور شہروں کے درندوں میں فرق یہ ہے کہ جنگل کے درندے اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے دوسرے جانوروں کی جان لیتے ہیں، شہروں کے درندوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے گندے ذہنوں کی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کی جان لیتے ہیں-