نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر حضرت معازؓ کو یوں نصیحت فرمائی:
” زبان کو اپنے قابو میں رکھو!”
حضرت معازؓ نے عرض کیا:
یا نبی الله ﷺ ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر ہماری گرفت ہوگی؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
“اے معاز! اللہ تمہارا بھلا کرے، جہنّم میں لوگ زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے ہی اوندھے منہ گریں گے.”
سنن الترمذی: ٢٦١٦
حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’میں نے رسول اللہﷺ سے ملاقات کی اور پوچھا کہ نجات کا ذریعہ کیا ہے۔آپؐ نے فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو،اپنے گھر میں رہو اور اپنے گناہوں پر روؤ۔‘‘(الصحیحۃ)
اپنی زبان کو بے فائدہ گفتگو سے پاک رکھیں۔ ان باتوں سے بچیں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں،جن کے بغیر ہمارا گزارا ہو سکتا ہے،جو ہمارا وقت ضائع کرنے کا سبب ہیں۔ ایسی بے فائدہ،فضول اور لا یعنی باتوں کا حساب دینا ہو گا۔جنہیں عام زبان میں ہم گپ شپ یا gossips کہہ کر مزے سے سنتے اور بیان کرتے ہیں۔ فون پر لمبی لمبی باتیں کرنا۔کئی کئی بار صرف خیریت اور حال احوال پوچھنا۔غیر ضروری طور پر دوسروں کے بچوں اور گھریلو زندگی کے معاملات میں دلچسپی کا اظہار کر نا۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ باتیں کرنے کے بعد ہمارے حصے میں کیا آیا؟. . . صرف گناہ
زبان کا معاملہ بہت حساس معاملہ ہے۔اسی لیے نبی اکرم ﷺ کی بہت سی احادیث زبان کے محتاط استعمال کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ بیشک بندہ کبھی اللہ کی رضامندی کا ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جس کی طرف دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور بیشک بندہ کبھی اللہ کی نافرمانی کا کوئی ایسا کلمہ کہتا ہے کہ اس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتااور اس کی وجہ سے دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
دنیا میں جھگڑے اور فسادات زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں ہی سے پیدا ہوتے ہیں اور جو بڑے بڑے گناہ آدمیوں سے بکثرت سر زد ہوتے ہیں ان کاتعلق بھی بیشتر زبان سے ہوتا ہے۔ اس لئے رسول اللہﷺاس کی بڑی تاکید فر ماتے تھے کہ زبان کو قابو میں رکھاجائے اور ہر قسم کی برُی باتوں سے بلکہ بے ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے بھی زبان کو روکا جائے اور جب بات کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو اور بات سے کسی خیر اور نفع کی اُمید نہ ہو تو خاموش ہی رہا جائے۔ یہ تعلیم رسول اللہﷺکی اہم تعلیمات میں سے ہے جن پر آپﷺنے نجات کا دار مدار بتلایاہے اور بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز، روزہ، حج اور جہاد جیسی عبادات کی نورانیت اور ان کا حسن وقبول بھی زبان کی اسی احتیاط پر موقوف ہے۔
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺسے عرض کیا: حضرت! میرے بارے میں جن باتوں کا حضور کو خطرہ ہو سکتا ہے، ان میں زیادہ خطرناک اور خوف ناک کیا ہے؟ حضرت سفیانؓ کہتے ہیں کہ آپﷺنے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کے فرمایا: سب سے زیادہ خطرہ اس سے ہے۔ (جامع ترمذی)