گناہ سے بچو


جب بھی گناہ کی طرف مائل ہونے لگو تو تین باتوں کا لازمی خیال رکھو

۱ اللہ دیکھ رہا ہے
۲ فرشتے لکھ رہے ہیں
۳ بہر حال موت آنی ہے

اللہ تعالی نے انسانوں کو با اختیار مخلوق بنایا ہے ۔ اس اختیار کے بعد انسان نیکی اور گناہ دونوں راستوں پر چلنے لگتا ہے ۔ دونوں کے نتائج الگ الگ ہوں گے ‘ نیکی کرنے والا جنت کا مستحق ہوگا جبکہ گناہ کرنے والا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلے گا ۔ ہر ہوش مند اور عقلمند انسان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اٹھانا پڑےگا ۔ ارشاد باری تعالی ہے

اِنَّا ہَدَینَاہُ السَّبِیلَ اِمَّا شَاکِراً واِمَّا کَفُوراً”
ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے۔ “ ( سورہ الدھر: 3)

اگر انسان گناہوں سے بچنا چاہتا ہے تو اسکو تین باتوں کا دھیان رکھنا چاہیئے

اللہ تعالی سن رہا ہے اور دیکھ رہاہے
ایک بندہ گناہ سے بآسانی بچ سکتا ہے اگر اس کے ذہن میں یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ جو کچھ وہ بولتا ہے اور کہتاہے نیز جو بھی کوئی عمل کرتاہے اس کا رب اسے سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( سورہ المجادلہ: ۷)
” کیا تم کو خبر نہیں کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ جہاں کہیں بھی ہوں تو اللہ ان کے ساتھ ہوتاہے۔ “

مولانا شمس پیر زادہ اپنی تفسیر ” دعوة القرآن“ میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” سرگوشی کرنے والے خواہ تین ہوں یا زیادہ یا اس سے کم اللہ اپنے علم ٬ اپنی سماعت و بصارت اور اپنی قدرت کے لحاظ سے وہاں موجود ہوتا ہے اس لئے پوشیدگی میں کی ہوئی باتیں اس سے مخفی نہیں رہ سکتیں “ ۔ (دعوة القرآن: 3/۱۱۰۲ حاشیہ:۶۱)

مولانا مودودی رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہيں:
” در اصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورے کررہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ “ ( تفہیم القرآن ۵/۸۵۳)

فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں
گناہوں سے بچنے کی ایک تدبیر یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی یہ سوچتا رہے کہ فرشتے ہمارے اقوال واعمال کو لکھ رہے ہیں اور اسی ریکارڈ کی بنا پر کل قیامت کے دن جنت یا جہنم کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ﴿ ( الزخرف: 80)
” کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور انکی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔“

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا قول ہے:
هَٰذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (الجاثیہ: 29)
” یہ ہمارا تیار کیا ہوا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے ۔ جو کچھ تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جارہے تھے ۔ “

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (سورة ق 16-18)
” ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کوہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ ) دو کاتب اس کے دائیں اور اس کے بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں کوئی لفظ اس کی زباں سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔ “

موت آنی ہے
گناہ کرنے سے پہلے موت کو یاد کرنے کی صورت میں گناہ سے بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (185) (سورہ آل عمران 185)
” ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے ۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے ۔“

مولانا شمس پیرزادہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
” موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے ۔ انسان اپنی ساری سائنسی ترقیوں کے باوجود موت پر قابو نہ پاسکا اور انسانی جسم کی ساخت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آئندہ انسان اس پر قابو پاسکے گالہذا موت جب اٹل حقیقت ہے تو یہ سوال کہ موت کے اس پار کیا ہے انسان کی اولین توجہ کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ اتنے اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہ کرنا یا کوئی اندھا اور غیر حقیقت پسندانہ عقیدہ اپنے ذہن میں بٹھالینا وہ بنیادی غلطی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی ساری زندگی غلط ہوکر رہ جاتی ہے ۔ دوسری عظیم حقیقت جس پر سے قرآن پردہ اٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ موت انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ موت وہ پُل ہے جس کو پار کرکے آدمی عمل کی دنیا سے نتائج کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے “ ۔ (دعوة القرآن ،جلداول،ص 245)

اللہ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Jab bhi Gunnah Ki Taraf Mayal Honay lago To Teen Baaton Ka Lazmi Khayal Rkho
Allah Daikh Raha Hai
Frishtay Likh Rahay Hain
Beherhaal Mout Aani Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں