اصل نیکی


نیکی وہ ہے جس سے پہلے ٹال مٹول نہ ہو اور
اس کے آخر میں احسان نہ جتایا جائے

نیکی خدا کیلئے ہوتی ہے، خدا کیلئے کی گئی نیکی کا صلہ مخلوقِ خدا سے پانا۔۔۔خدا سے بے وفائی ہے۔ اپنی نیکی کی داد وصول کرنایا کسی طرف سے داد کے انتظارمیں رہنا دراصل نیکی کا مول لگوانا ہے۔ نیکی انمول ہوتی ہے۔۔۔اور مول لگوانے سے انمول بے مول ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں نیکی کے بارے میں ارشاد ہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ

مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں ایسی ہے جیسے ایک دانہ جو اگاتا ہے سات بالیں (اور) ہر بال میں سو دانہ ہوں(اور) اللہ تعالیٰ (اس سے بھی )بڑھا دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور اللہ وسیع بخشش والا جاننے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا ثواب عطا فرماتا ہے۔ بلکہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک عطا فرما دیتا ہے۔

کسی پراحسان جتلانا اسے زیر بار کرنا ہے ، اسے شرمندہ کرنا ہے۔شرمندہ کرنا بھی سزا دینے کے برابر ہوتاہے۔ اپنی نیکی کو کوڑا نہیں بنانا چاہیے کہ جس نے روگردانی کی ‘ اس پر برسنے لگے۔ نیکی تو شاداب کرتی ہے ، شرابور نہیں کرتی۔ نیکی کوئی فن نہیں، کہ ’’فن کار‘‘ اپنے فن پاروں کی نمائش لگاتا رہے ۔ اس کے برعکس نیکی کو چھپانا ایک فن ہے۔ اس فن میں طاق لوگ یکتا ہوتے ہیں۔ وہ اس سبق پر عامل ہیں کہ ایک ہاتھ سے دیا جائے تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔ وہ دینے کے بعد لینے والے کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔حضرت واصف علی واصف کا قول ہے: ’’نیکی کی نمائش ہی نیکی کی نفی ہے‘‘ دراصل مخلوق میں نیکی کی نمائش لگانانیکی کی توہین ہے۔نمائش کی غرض شہرت ہے ۔۔۔ اور شہرت کے لیئے لوگ نیکی کے بعد احسان جتاتے ہیں، اپنی نیکیوں کو اپنے عیبوں کی طرح چھپا کر رکھنا چاہیے۔

اس شخص کے لیے بھی وعید ہے جو کسی آدمی کو کوئی چیز از قسم زکوٰة، صدقہ یا خیرات دے اور پھر اس پر وہ احسان جتاتا پھرے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تُبْطِلُوْاصَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَایُوٴْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثِلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًالَایَقْدِرُوْنَ عَلیٰ شَیْ ءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللهُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ

”اے ایمان والو! مت ضائع کرو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچا کر ،اس آدمی کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے اور یقین نہیں رکھتا اللہ پر اور قیامت کے دن پر ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چکنی چٹان ہو، جس پر مٹی پڑی ہو، پھر برسے اس پر زور کی بارش اور چھوڑ جائے اسے چٹیل صاف پتھر۔“

یعنی اے ایمان والو! صدقہ و خیرات کے بعد احسان جتلا کر اوراذیت دے کر اپنے صدقات کو باطل نہ کرو۔احسان جتلانے سے اور اذیت پہنچانے کے گناہ سے صدقہ کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔“ جو کوئی صدقہ خیرات کرتا ہے تو یا تو وہ لوگوں کو دکھانے اور نمود و نمائش کے لیے کرے گا یا اللہ کی رضامندی کے لیے۔ اگر اللہ کی رضامندی مقصود ہے تو پھر چاہیے کہ کسی کے ساتھ بھلائی کر کے اسے بھول جائے، نہ کہ اس کا تذکرہ کرتا پھرے یا اس شخص پر احسان جتلاتا رہے ۔ اس طرح کرنے سے وہ اپنی نیکی کو برباد کر دیتاہے۔

قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ثُمَّ لَایُتْبِعُوْنَ مَآاَنْفَقُوْامَنَّاوَّلَآاَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ

”جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، پھر جو خرچ کیا اس کے پیچھے نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ دکھ دیتے ہیں، انہیں کے لیے ثواب ہے ان کا ان کے رب کے پاس، نہ کوئی خوف ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“

Naiki Vo Hy Jis Say Pehle Taal Mtol Na Ho Or
Us Kay Akhir Mein Ehsaan Na Jtaya Jaye


اپنا تبصرہ بھیجیں