ایک دن ہمارے مورچے پہ آئی ایک گولی اڑتی ہوئ
اور جان لے گئی میرے ایک سپاہی کی
اسکی موت کے غم نے میرے دل کو جیسے ڈبو دیا
میں نے کھودا اس جگہ کو جہاں گرا تھا وہ
اور ڈھونڈا اس ٹکڑے کو جو نہیں تھا میرے انگوٹھے سے بڑا
گرم دھات سے بنا گولی کا ایک خول—-
میں نے پگھلایا اسکو اور بنایا اک سانچا
اور اس میں ڈالا ابلتے خول کو
ڈھال دیا اسکو ایک انگوٹھی کی صورت میں
اور جب میری انگوٹھی ہوگئی ٹھنڈی اور ہموار
میں نے ایک الجیرین سپاہی سے
لکھوایا یہ لفظ اس پر عربی میں
مکتوب
مکتوب
یعنی یہ لکھا جا چکا تھا
کیونکہ تقدیر کی کتاب میں
جس کے صفحے ہیں اور سرورق ہے
اس کتاب میں سب پہلے سے درج شدہ ہے
جس دن تم اپنا وجود کھو دو گے
وہ گھڑی، وہ جگہ، وہ وجہ
اس کتاب میں نشان زدہ ہے
اور تمہیں نہ خیال سے نہ عقل سے
اس تقدیر کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے
بس.. ڈر کو دل سے بھگانا سیکھ لو
اگر ایک دن مرنا ہی ہے تو جان لو اے انسان!
کہ یہ حصہ ہے ایک بڑے مکتوب کا
جس سے تم بچ نہیں سکتے—-
سو تم ایسے مرو جیسے تمھارا جنازہ لے گیا ہے تمہیں
ان شاہانہ دروازوں کی طرف
جن ک اس پار ہیں بہت سے عظیم لوگ
فرق بس اتنا ہے کہ وہ تمھارا استقبال کرتے ہیں
یا ملامت سے تمہیں خود سے الگ کر دیتے ہیں
ساری بات اتنی سی ہے کہ
اس دنیا سے آقا بن کے جاتے ہو یا غلام بن کر—-
اس لیے جب جنگ میں حکم آتا ہے حملہ کرو
اور دل کانپتا ہے یاد کر کے زندگی کے پر لطف سال
تو اس جنگی شور میں کچھ سپاہی دھیان بٹانے کو
صاف کرتے ہیں اپنی بندوقیں، کچھ گنگناتے ہیں نغمے
اور کچھ اپنی سرنگیں کھودتے جاتے ہیں
ایسے میں
میں دیکھتا ہوں اپنی انگوٹھی کو
میرے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں
موت کا فرشتہ خاموشی سے قریب آجاتا ہے
اور میں سوچتا ہوں اس دوسری دنیا کے بارے میں
ان شاہانہ دروازوں کے بارے میں
اور اس شور میں یہ خیال راحت لے آتا ہے
میرے دل کی پھڑپھڑاہٹ خاموش ہو جاتی ہے
ہر طرف چھا جاتا ہے
ہتھیار ڈالنے کا احساس
سکینت
اور مشرق کی دانائی
ایلن سیگر