وہ خون دے کے نگار چمن نکھار گیا
بڑے خلوص سے قرضِ وفا اتار گیا
زمانہ بیت گیا پھر بھی آج تک منتظر
سلام کہتی ہے، اس کو مرے وطن کی فضا
شہید لیاقت علی خان (2 اکتوبر 1896ء – 16 اکتوبر 1951ء)
آج 16 اکتوبر ہے اور پاکستان کا پہلا سیاسی قتل 16 اکتوبر کو ہوا تھا- نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے ان کو 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا، آج انکی 69ویں برسی ہے-
شہید ملت لیاقت علی خان ایک عدیم النظیر شخصیت تھے۔ وہ یکم اکتوبر1895ءکو کرنال میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق ایک جاگیردار نواب گھرانے سے تھا۔ تحریک پاکستان کے لئے قائداعظم کے ساتھ شبانہ روز جدوجہد کی، کامیابی ملنے پر اپنی جاگیر بھارت میں چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصول کے لئے طویل اور مشکل جدوجہد میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ساتھ دینے والے عظیم رہنما لیاقت علی خان نواب آف کرنال خانوادہ کے سپوت نے 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اگست 1951ء میں یوم پاکستان کے موقع پر لیاقت علی خان نے کراچی میں ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”مجھے معلوم نہیں کہ قوم کے اعتماد اور اس کے خلوص کو کس طرح بحال کیا جا سکتا ہے، میرے پاس جائیدادیں نہیں ہیں،میرے پاس امرا نہیں ہیں مجھے خوشی ہے کہ میرے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں، کیونکہ یہ آدمی کے یقین کو متزلزل کر دیتی ہیں۔ میرے پاس صرف میری زندگی ہے اور وہ بھی پچھلے چار برسوں سے پاکستان کے نام وقف کر چکا ہوں۔ مَیں اس کے سوا اور کیا دے سکتا ہوں،مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کے دفاع کے لئے قوم کو خون بہانے کی ضرورت پڑی تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہو گا“۔
ستمبر1946ء میں وائسرائے ہند نے کانگرس اراکین پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی۔ مسلم لیگ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مفادات کی خاطر اس عبوری حکومت میں شامل ہونا چاہئے۔ اس طرح کابینہ میں مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت علی خان کو وزیر خزانہ بنایا۔ انہوں نے گورنرجنرل وائسرائے ماﺅنٹ بیٹن کی عبوری حکومت میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے بہترین 1947-48ء کا بجٹ پیش کیا- پاکستان اور بھارت کو آزاد ہوئے 65 سال گزر چکے ہیں اور اس دوران ہر ملک کے وزیر خزانہ نے 65 مرکزی بجٹ پیش کئے ہیں لیکن کسی بجٹ کو قبول عام کا وہ درجہ نصیب نہ ہو سکا جو متحدہ برطانوی ہندوستان کے پہلے اور آخری وزیر خزانہ لیاقت علی خان کے 1947-48ء کے بجٹ کو حاصل ہوا تھا۔ تاریخ میں اس بجٹ کو غریبوں کے بجٹ (Poor Man’s Budget) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی تمام پالیسیوں کا رُخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کرنا تھا اور اس انداز سے کہ غریب طبقوں اور غریب علاقوں کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے۔ اسے کئی ہندو وزراءاور پنڈت جواہر لال نہرو نے پسند کیا۔
اگر بنظر غائرمشاہدہ کیا جائے تو لیاقت علی خان کی سیاسی سرگرمیوں کا دائرہ کار پورے برصغیر تک محیط تھا لیکن خاص طور پر مسلم اقلیتی صوبوں یوپی اور سی پی کے مسلمانوں تک قائداعظم اور مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے کے لئے لیاقت علی خان نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ لیاقت علی خان کی بابت قائداعظم کے یہ تاریخی الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں۔
لیاقت علی خانؒ میرے دست راست ہیں وہ شب و روز کام اور خدمت کرتے ہیں ان کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا جو بوجھ ہے اس کامیرے سوا کوئی اور اندازہ نہیں کر سکتا‘‘۔
16 اکتوبر1951ء کو کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ بقول بیگم رعنا لیاقت علی خان وزیراعظم نے اس جلسہ میں نئے انتخابات کا اعلان کرنا تھا، جس میں ملک میں جمہوریت ابتدا ہی سے مضبوط ہو جاتی، لیاقت علی خان طے شدہ وقت بعداز دوپہر چار بجے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔وہ کرسی صدارت پر بیٹھے تو صدر مسلم لیگ راولپنڈی نے انہیں ہار پہنائے اور ان کو دعوتِ خطاب دی گئی تو لیاقت علی خان نے حاضرین کی جانب دیکھا تو وہ سب خوشی اور تحسین سے بے حد جذباتی ہو گئے ۔وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے تقریر کے لئے لب کشائی کی۔ انہوں نے ابھی صرف دو الفاظ ”برادرانِ ملت“ ہی کہے تھے کہ گولیاں چلنے کی آواز آئی انہوں نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنے دِل پر رکھا اور ساتھ ہی سٹیج پر گِر گئے، ان کے سیکرٹری نواب صدیق علی خان نے بھاگ کر ان کا سر اپنی گود میں لے لیا۔ پانی پلانے کی کوشش کی، لیکن وہ پانی نہ پی سکے، وزیر اعظم کو فوری طور پر فوجی ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے آخری الفاظ تھے “خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘۔
شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر نے پستول کی گولی سے انہیں شہید کر دیا۔ ایک صاحب نے قاتل کو پکڑ لیا، لیکن شاہ محمد اے ایس آئی نے سید اکبر کو گولی مار کر جان سے مار دیا۔ عرصہ دراز تک لیاقت علی خان کی شہادت کی تحقیق و تفتیش ہوتی رہی، جو آج تک معمہ بنی ہوئی ہے اور یوں شہید ملت کے قتل کا راز ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا۔ لیاقت علی خان کو 17 اکتوبر1951 کو قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں دفن کردیا گیا اور اس عظیم رہنما کی یاد میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کو ’’لیاقت باغ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔