رشوت حرام آمدنی کی بدترین اقسام میں ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے :۔ ترجمہ اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھائو۔ (النساء)- رشوت اس میں داخل ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا رشوت لینے والوں اور رشوت دینے والوں،دونوں پر اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے۔ (ابن ماجہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رشوت لینے والے رشوت دینے والے دونوں جہنم میں جائیں گے۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی اور طبرانی میں ہے۔
ایک حدیث میں رشوت دینے والا رشوت کی دلالی کرنے والا اور رشوت لینے سب پر اللہ کی لعنت۔ مسند احمد۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرمایاکرتے تھے کہ جج کا رشوت لے کر کسی حق میں فیصلہ کرنا کفر کے برابر ہے۔( طبرانی)اسی طرح کسی افسر کا رشوت لے کر کسی ایسے شخص کو ملازمت دینا جو اُ س کانہیں کسی اور کا حق تھا تو یہ بھی ایسا ہی جرم ہے۔
رشوت کی یوں تو بہت ساری صورتیں ہیں مگر چند خاص صورتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ کسی ملازم یا کسی افسر کا کوئی کام کرنے سے ٹا ل مٹول کرنا، جب تک اُس کا م کے مستحق شخص سے کوئی رقم نہ لے۔ اگر کام کرنے والے کا کام حق تھا اور اس میں کسی اور پر کوئی ظلم نہیں تھا تو اس صورت میں رشوت دینے پر جو شخص مجبور کیا گیا ، اُس پر مالی ظلم ہوا۔ اس صورت میں رشوت دینے والا گنہگار نہ ہوگا۔ ہاں رشوت لینے والے پر لعنت ہوگی اور وہ کئی حرام کاموں کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا۔ ایک اپنے مفوضہ کام کو دیانتداری سے انجام نہ دینے کا جرم،اس لئے وہ خائن قرار پائے گا ۔دوسرے وہ جس کام کےکرنےکی تنخواہ لے رہا ہے اُ س کا م کو تنخواہ لینے کے باوجود نہ کرنا ،اس لئے تنخواہ بھی اس کے لئے حلال نہ رہی۔تیسرےے و ہ کام کرنے والے سے کوئی رقم لئے بغیر کام کرانے کا ذمہ تھا مگر اُس نے رقم لی یہ رقم لینا تیسرا گناہ کبیرہ ہے اور اگر ذہناً اُس نے اس کام کو حرام اور جرم نہ سمجھابلکہ حلال اور درست سمجھا تو اس کی وجہ سے اُس کا ایمان بھی ختم ہوسکتا ہے حالانکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی باور کراتا رہے گا۔
رشوت کی ایک قسم یہ ہے کہ قومی خزانے سے رقم کی وہ مقدار لی جائے جو دراصل خرچ نہیں ہوئی ہے۔ یعنی ایک ہزار کے بل کی جگہ دس ہزار کا بل بنایا جائے اور رقم نکالی جائے۔ رشوت کی یہ صورت ہمارے معاشرے میں کثیر الوقوع ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کوئی کم جتنی رقم کا الاٹ ہوا، اس سے بہت رقم خرچ کی جائے اور رقم بچا کر آپس میں تقسیم کی جائے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کسی کی زمین حاصل(Aquire)کرے اور اس کی قیمت مقرر کرنے میںملازم رشوت لیں پھر جو قیمت مقرر ہو جائے ا س کے ادا کرنے میں بھی کچھ رقم ملازمین خود رکھ لیں اور مقررہ قیمت سے بہت کم مالک کو دی جائے۔ رشوت کی ایک صورت بھی پائی جاتی ہے کہ گورنمنٹ کے کسی بھی ادارے یا دفتر کے لئے کوئی بڑی خریداری کر نی ہوتی ہے اور جس ملازم کو یہ کام سپرد ہوتا وہ دکانداروں سے کہے کہ اگر مقررہ قیمت سے زائد لکھ کر زائد رقم مجھے بطور کمیشن دوگےتو میں تم سے خریداری کروں گا۔ چنانچہ دکان دار مجبور ہوتا ہے کہ وہ بل میں زائد رقم لکھے اور یہ زائد رقم وہ ملازم ،جو خریداری کا ذمہ دار رہے، لے گا۔
رشوت کی ایک کثیر الوقوع قسم یہ ہے کہ کسی کم تعلیم یافتہ نوجوان سے ایک مخصوص رقم لے کر پھر اس کے عوض میں اُسے کوئی ایسی ملازمت دلائی جائے جس کا وہ حقیتہً مستحق نہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی دفتر میں جتنی بل جمع کرنی ہو کوئی ملازم اُس سے کم رقم لے کر اس کو بل کی رقم جمع کرنے سے بری کرائے۔ مثلاً جنگلات کا ملازم درخت کاٹنے پر کچھ رقم لے کر اپنی جیب میں رکھے اور درخت کا ٹنے والے کو بری کرے۔ غرض کہ رشوت لینے اور دینے کی سینکڑوں شکلیںہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ کوئی ایسی حکومت ہو جو خود حرام سے اور خاص کر رشوت سے ایسے بچتی ہو جیسے زہر سے۔ پھروہ اوپر کے ملازمین کا محاسبہ کرے اور جہاں واقعتہً رشوت لینا ثابت ہو جائے۔ ایسے شخص کو چاہئے وہ منسٹر ہو، افسر ہو، بیورو کریٹ ہو یا عام ملازم ہو اُس کی ملازمت ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائے۔ اور اس کا باقاعدہ قانون بنایا جائے تمام لوگوں کو اعلاناً کہا جائے کہ جہاں بھی رشوت کا معاملہ ہو مقررہ دفتر کو اطلاع دی جائے۔ اور اُسی وقت موقعہ پر ہی اُس کامواخذہ کیا جائے جیسے کہ آج بھی چند عرب ملکوں میں یہ پہلو روشن ہے رشوت خود ہر دفرد بڑا ہو چھوٹا اُس کو مشتہرکرکے بلیک لسٹ کیا جائے-
RISHWAT HARAAM AMDANI KI BADTAREEN KISAM
Load/Hide Comments