بسم اللہ الرحمن الرحيم
تیسرا عشرہ نجات
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّٗا تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا
اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والاہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس ہمیں معاف فرمادے۔
رمضان المبارک، رحمان کی طرف سے آنے والا معزز مہمان، نور کا آسمان، بے پایاں رحمت کا سائبان اور انسان کی بخشش کا ایسا حیرت انگیز اور قدرتی سامان ہے کہ اگر انسان پر حقیقت کھل جائے اور اس کی باطنی آنکھ وہ عجائبات اور مناظر دیکھنے لگ جائے جو فرشتوں کی آمد و رفت سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ دم بخود رہ جائے اور اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔ یوں تو رمضان کا سارا مہینہ ہی ان صفات و برکات سے معمور ہے مگر آخری دس دن، پہلے بیس دنوں سے بھی زیادہ اہمیت اور انفرادی شان رکھتے ہیں، جن میں اعتکاف ہوتا ہے، شب قدر کو پانے کی کوشش کی جاتی ہے اور آخر میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ دیا، جس میں آپ نے ارشاد فرمایا :
وَهُوَ شَهْرٌ اَوَّلُه رَحْمَةٌ وَ اَوْسَطُه مَغْفِرَةٌ وَآخِرُه عِتْقٌ مِنَّ النَّارِ. (ابن خزيمة)
’’یہ ایک مہینہ ہے، جس کا ابتدائی حصہ رحمت، اور درمیانی حصہ مغفرت کے لئے ہے اور تیسرے حصہ میں دوزخ سے رہائی عطا کر دی جاتی ہے‘‘۔
یہ وہ عشرہ ہے جس کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کا حکم ہے۔یوں تو پورا رمضان ہی عبادت، ذکرو اذکار، تلاوت قرآن، فرائض و نوافل کی پابندی، صدقہ و خیرات اور نیکی و احسان کا مہینہ ہے، مگر اس کے آخری عشرے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیوںکہ آپﷺ آخری عشرے میں باقی ایام کی نسبت عبادت کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔خود بھی جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے،جس سال آپ ﷺ نے رحلت فرمائی، اس سال آپﷺ نے رمضان میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ ایک مرتبہ آپﷺ کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آپﷺ نے اس کے عوض شوال کے مہینے میں اعتکاف فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل آنحضرتﷺ کو کس قدر محبوب تھا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ایک دن کااعتکاف کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کوآڑ بنادے گا۔جن کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوگی۔ ‘‘
رمضان کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے وہ سنتِ مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی مسلمانوں کو بحیثیت اجتماعی اس سنت کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوںکہ احادیث میں اس کی انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ اعتکاف کا لغوی معنی ہے ٹھہرنا اور رکنا۔ اصطلاح شریعت میں کوئی شخص اللہ کا قرب حاصل کرنے،اس کی عبادت، ذکر و اذکار کرنے کی نیت سے مسجد میں ایک خاص مدت کے لیے قیام کرے تو اسے اعتکاف کہتے ہیں۔ اللہ کے لئے ضبط نفس، گوشہ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام اعتکاف ہے۔ اسی طرح آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمروں جیسا ہوگا۔ ‘‘
تیسرا اور آخری عشرہ بھی اب اپنے اختتام کی طرف رواں ہے. رمضان کو الوداع کہنے کا وقت آرہا ہے. کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جنکو اس رمضان کی فیوض و برکات سے دامن و دل بھرنے کا موقع ملا اور نہ جانے اگلے برس ہم میں سے کتنے ہوں جن کی قسمت میں اگلا رمضان ہو گا. کیوں نہ پھر اس مبارک مہینے کے آخری دنوں اور آخری لمحات کو ضائع نہ کریں اور اپنے خالق و مالک سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنی اور اپنے چاہنے اور نہ چاہنے والوں کی مغفرت کی دعا مانگیں-