سکون قلب


لِّنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ‌ؕ وَمَنۡ يُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِكۡرِ رَبِّهٖ يَسۡلُكۡهُ عَذَابًا صَعَدًاۙ‏ ﴿۱۷﴾
”اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے گا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا“
سورة الجن ﴿۱۷﴾

سورة الجن

یہ ایک آیت سورہ الجن کی ہے ”ومن یعرض عن ذکر ربہ یسلکہ عذابا صعدا“۔ اس کا معنی ہے…اور جو اپنے رب کے ذکر سے منہ پھیرے گا (اس کا رب) اس کو شدید عذاب میں داخل کر دے گا۔ اس آیت میں شدید عذاب کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ بھی عجب ہیں۔ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ اس کو عذاب دے گا بلکہ ”یسلکہ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معانی ہے داخل کرنا جیسے دو دیواروں کے درمیان کسی کو چن دینا۔ آگے پیچھے دیوار بنا کے ہر طرف سے راستہ روک دینا۔ اگر ہم قرآن اور نماز کو چھوڑ کے اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں تو اللہ تعالی اس دنیا کو دیواروں کی صورت ہمارے اردگرد لا کھڑا کرتا ہے۔ عذاب دراصل کہتے ہیں کرب کو۔

کیوں ہماری دنیا ہمیں خوش نہیں کرتی؟
کیا چاہیے زندگی میں؟
ہر طرف آسانی، آرام اور من پسند چیزوں کے باوجود دل میں اندھیرا کیوں ہوتا ہے؟

کیونکہ ہم نے خوبصورت چیزوں کی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں اپنے اردگرد۔ وہ روشنی کو اندر نہیں آنے دے رہیں۔ اللہ تعالی کا ذکر ان دیواروں کو گراتا ہے۔ پھر سب نظر آنے لگتا ہے۔ اسی لیے ہمیں کبھی کبھی اپنامستقبل بالکل تاریک لگتا ہے۔

جیسے کسی اندھی سرنگ میں کھڑے ہوں

کچھ پتہ نہیں۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ کیونکہ روشنی نہیں ہے۔ نور نہیں ہے۔ روشنی چاہیے تو اللہ تعالی کے ذکر سے اپنے گھر اور دل کو آباد کرنا ہوگا۔ کیونکہ دل کا سکون اللہ کی یاد میں ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو دلوں کے اطمینان کا ذریعہ بتا یا ہے

الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطۡمَٮِٕنُّ قُلُوۡبُهُمۡ بِذِكۡرِ اللّٰهِ‌ؕ اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَٮِٕنُّ الۡقُلُوۡبُؕ‏ ﴿۲۸﴾
”جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (ان کو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں“
سورة الرعد ﴿۲۸﴾

جس انسان کو بھی اس دنیا میں دیکھین گے وہ کسی نہ کسی پریشانی میں گرفتار ہے انسان کو اس پریشانی سے چھٹکارا پانے کا سب سے آسان طریقہ خدا کی یاد میں پوشیدہ ہے، کیونکہ جو شخص بھی ہر حالت میں خدا کو یاد کریگا وہ کبھی بھی زندگی کی ان پریشانیوں سے پریشان نہیں ہوگا۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ رِيْحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ التَّمْرَةِ لَا رِيْحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ
”جو بندہء مومن قرآن مجید پڑھتا رہتا ہے اس کی مثال مالٹا کی طرح (عرب کے ایک) لذیذ پھل کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی اور مزہ بھی خوب اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ اور وہ بندہء مومن جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال خشک کھجور کی سی ہے جس میں خوشبو تو نہیں ہوتی البتہ ذائقہ شیریں ہوتا ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوں کو پڑھائیں، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں شر سے بچائے اور ہم سب کو رمضان کی خیر و برکت عطا کرے۔

آمین۔

Aur Jo Shakhs Apnay Parwardigaar Ki Yaad Say Mun Phaairay Ga
Wo Us Ko Sakhat Azaab Mein Dakhil Karay Ga
And Whoso Turneth Away from the Remembrance of His Lord
He Will Thrust Him into Ever-growing Torment
﴿Surah Jinn ﴾17


2 تبصرے “سکون قلب

  1. اللہ نے کہا قرآن پاک میں بالکل سچ حق ہے سمجھانے والے بہت سچے حق پرست ہیں0

  2. اللہ پاک کے دین سے اتنا پیار ہوجاِئے کہ دیدار مصطفیﷺ نصیب ہوجائے ۔اور ساری سستی غفلت جاتی رہے۔لیکن کیسے ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں