تم قطرہ مانگتے ہو اور
میرا رب دریا عطا کرتا ہے
بعض بندوں سے اللہ بہت زیادہ محبت کرتا ہے
وہ بار بار دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں۔
مگر دعا کی قبولیت کے آثار نظر نہیں آتے
مگر وہ اللہ سے مایوس نہیں ہوتے
اپنا معمول بنائے رکھتے ہیں کبھی اللہ سے شکوہ نہیں کرتے۔
اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرتے ہیں
کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جو اللہ سے مانگتے تو بہت درد سے ہیں
کراہتے ہوئے، مگر دعا کی قبولیت میں تاخیر ہوجائے تو اللہ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں
حتی کہ دعا مانگنا بھی چھوڑ دیتے ہیں،
کچھ لوگ دعا نہیں مانگتے،
بلکہ نعوذ باللہ اللہ کے وجود کا ہی انکار کردیتے ہیں۔
یا کافر لوگ جو کفر کرتے ہیں، اللہ ان کو بن مانگے عطا کرتا ہے بلکہ کئی بار مومن لوگوں سے بھی زیادہ عطا کردیتا ہے
اصل مقصد تو اللہ کی رضا پہ خوش ہوجانا ہے
کچھ دعائیں قبول ہوتی ہیں، کچھ آخرت کے خزانوں میں ذخیرہ ہو جاتی ہیں، ان کا کئی گنا زیادہ اجر بعد میں ملتا ہے،
دعا تو اللہ سے باتیں کرنے کا ایک ذریعہ ہے
اللہ کی بادشاہت کو تسلیم کرتے ہوئے اللہ کے خزانوں سے لینے کا ذریعہ ہے۔
اللہ ہر بیقرار کی سنتا ہے
دعاؤں کی قبولیت میں تاخیر ہو بھی جائے تو بھی مانگتے رہیں شکوہ نہ کریں یہ سوچِیں کہ ہمارے مانگنے میں کمی رہ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ ورنہ اس کے خزانوں میں نہ کمی ہے نہ سوئی برابر کبھی کمی ہوسکتی ہے۔
جو کچھ ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اُس کا نہ ملنا کوئی انوکھی بات نہیں ، بلکہ ایسا ہونا ہماری زندگیوں کے معمولات میں سے ایک ہے ، لیکن ہم اس معمول کو معمول سمجھنے کی بجائے اسےحسرت اور دُکھ بنا لیتے ہیں اور پھر وہ حسرت اور دُکھ ہمارے اندر طرح طرح کی پریشانیاں ، غم ، اور نفسیاتی دباؤ پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں ، بلکہ بسا اوقات تو مادی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مل توجاتا ہےلیکن اُس کے ملنے کے نتیجے میں جو کچھ توقعات لگائے ہوتے ہیں وہ پوری نہیں ہو پاتِیں ، پس اس صورت میں بھی ہم اپنی خواہش کے مطابق چیز ملنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتے ، سُکون نہیں پاتے ، بلکہ مزید حسرتوں اور دُکھوں کو خود پر مسلط کر لیتے ہیں اور نتیجہ پہلی صُورت سے زیادہ منفی اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔
اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ پاناچاہتے ہیں وہ مل بھی جاتا ہے ، اور اس کے ملنے کے نتیجے میں جو کچھ توقعات ہوتی ہیں وہ بھی پوری ہوتی ہیں ، لیکن ہمیں اُس چیز کے کھو جانے ، ختم ہوجانے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے اور اُس کے کھو جانے ، ختم ہوجانے کے بعد اُس کے بغیر ہو سکنے والی ممکنہ پریشانی کی سوچ ہمیں مذکورہ بالا دونوں حالتوں سے زیادہ حسرت زدہ کر کے خوف ، غم اور نفیساتی دکھوں کے حوالے کرتی ہے ،
اِن تمام حالتوں کا ایک ہی سبب ہے ، اور وہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سےکی گئی تقسیمء رزق پر ، اللہ کے فیصلہ کردہ رزق کے ملنے پر ، اللہ کے فیصلے کے مطابق رزق میں سے کچھ کم ہوجانے پر ، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ دُنیا کے مال و اسباب میں سے ملنے والے حصے پر راضی نہ ہونا۔
جی ہاں ، جب کوئی شخص اپنے رب کے عطاء کردہ رزق پر راضی نہیں ہوتا ،تو اس کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو درست نہیں مان رہا ، اللہ کی بے عیب حِکمت اور مکمل ترین انصاف اور شفقت والی تقسیم کو قبول نہیں کر رہا ، بلکہ اُس میں کمی اور نادرستگی ہونا مان رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے
أَنَّ اللهَ يَبْتَلِي عَبْدَهُ بِمَا أَعْطَاهُ، فَمَنْ رَضِيَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَهُ، بَارَكَ اللهُ لَهُ فِيهِ، وَوَسَّعَهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ لَمْ يُبَارِكْ لَهُ :::اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس کے ذریعے اپنے بندے کو آزماتا ہے ، پس جو اُس پر راضی ہو جاتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے حصہ فرمایا تو اللہ اُس حصے میں اپنے اُس بندے کے لیے برکت دیتا ہے ، اور اُس میں وسعت دیتا ہے ، اور جو کوئی راضی نہیں ہوتا اُس کے لیے برکت نہیں دی جاتی ۔(مُسند احمد)