Site icon Shaur

مرنے کے بعد وہ بھی زمیندار ہو گیا


بیٹھے بٹھائے غم میں گرفتار ہو گیا
گوشہ نشیں تھا ، رونق بازار ہو گیا

کل بے وفا تھا آج وفادار ہو گیا
اچھا ہوا کہ صاحبِ اسرار ہو گیا

دو گز زمین مل ہی گئی اُس غریب کو
مرنے کے بعد وہ بھی زمیندار ہو گیا

بس یہ ہوا کہ آپ کی زلفوں کی یاد میں
منزل کا راستہ ذرا ہموار ہو گیا

رہتے رہے ہیں آپ جہاں وہ مکانِ دل
مدت ہوئی حضور! کہ مسمار ہو گیا

یوں مسکرائی آج وہ چشم شراب ریز
مجھ جیسا پارسا بھی قدح خوار ہو گیا

مجبور کس قدر تھا میں نازؔ اُس کے سامنے
اِنکار کر رہا تھا ، پر اقرار ہو گیا

شوکت علی نازؔ

Bethe Bethe Ghum Mein Giraftaar Ho Gaya
Gosha Nasheen Tha Ronaq e Bazar Ho Gaya
Do Gaz Zameen Mill Hi Gayi Us Ghareeb Ko
Marnay Kay Baad Wo Bhi Zameendar Ho Gaya


Exit mobile version